تحریر :سجاد علی شاکر
نظام جمہوریت میں بلدیاتی انتخابات جمہوری کلچر کے فروغ کیلئے نرسری کا کردار ادا کرتے ہیں۔ بلدیاتی نظام ،جمہوریت کے حقیقی معنی یعنی عوام کی حکومت ،عوام کے لئے، کو عملی جامہ پہناتا ہے۔یہ نظام جمہوریت کی مضبوطی کی پہلی سیڑھی بھی تصور ہوتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات ہوئے 7 ماہ ہو چکے ہیں مگر ابھی تک کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے کہ اْن کا مستقبل کیا ہو گا، اْن کے اختیارات کیا ہوں گے اور ان کا سیلری پیکیج کیا ہو گا۔ویسے تو ہمارے سیاستدان اور حکمران جمہوریت کادرس دینے اور جمہوریت کی افادیت بیان کرنے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لیکن جب بات عملی طور پر آجاتی ہے تو ان نام نہاد جمہوریت کادرس دینے والوں کی نہ تو اپنی پارٹیوں میں جمہوریت نظر آتی ہے اور نہ ہی ان کی طرز حکمرانی میں ہمیں جمہوریت محسوس ہوتی ہے۔ موجودہ پاکستان حکومت نے سپریم کورٹ کے سخت احکامات کے بعد انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ موجودہ حکومت نے بھی انتہائی در گزر سے کام لیا مگر جب معاملہ خراب ہوتے دیکھا تو پھر انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔جمہوریت کا بنیاد بلدیاتی نظام سے ہی شروع ہوتا ہے ۔
آخر کیا وجہ ہے کہ بڑی جماعتیں ایک ایسا ‘معصوم’ اور بیضرر نظام بنانا چاہتی ہیں جو اختیارات سے عاری ہو اور صرف ربڑ سٹیمپ کے طور پر کام آئے؟اس سوچ کے پیچھے سیاستدانوں کا یہ خوف ہے کہ عوام کہیں ان کے بجائے ایک بالکل نئی سیاسی قیادت کو نہ کھڑا کر دیں جو ایک دن انکے اقتدار کو چیلنج کرنے کے لائق ہو جائے.ایک مظبوط بلدیاتی نظام عوام میں جمہوریت کی جڑیں گہری کرنے کا باعث ہوگا جس سے ملکی سیاست مظبوط ہوگی اور ہمارے اداروں کا بگڑا ہوا طاقت کا توازن درست کرنے کا بھی راستہ نکل پائے گا.یہ ٹھیک ہے کہ ابھی جیسے تمام اختیارات کا سرچشمہ صوبائی حکومت یا دوسری نظروں میں وزیراعلیٰ صاحب ہوتے ہیں وہ کام نہیں ہوگا لیکن صاحب آپ اپنی ذاتی خودنمائی کے لئے عوام سے انکا حق تو مت چھینئے یہی وجہ ہے کہ ملک میں بلدیاتی نظام فعال نہیں ہو سکے۔بلا شبہ پرانے بلدیاتی قوانین میں متعدد خامیاں موجود تھیںاس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان خامیوں کو دور کر کے جامع قانون سازی کے بعد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی انتہائی ضروری ہے۔ملک کے بہت سے مسائل بلدیاتی انتخابات سے ہی ختم ہو سکتے ہیں۔ ایک اور بات جو انتہائی اہم ہے کہ ابھی تک یہی کسی کو نہیں پتہ کہ ایک جنرل کونسلر کی کیا تنخواہ ہو گی، اْس کے اختیارات کیا ہوں گے۔
یو سی چیئرمین کا کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے، ایک یو سی چیئرمین اپنی جیب سے لاکھوں روپے الیکشن مہم پر خرچ کرنے کے بعد منتخب ہوتا ہے مگر کیا وہ سارے کام چھوڑ کر صرف خدمت خلق سمجھ کر یہ کام کرے گا یا کہ آپ اس کو کھلے عام کرپشن کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ جب اْس کی تنخواہ نہیں ہو گی، مراعات نہیں ہوں گی تو پھر وہ لگائے گئے پیسے کہاں سے پورے کرے گا؟ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ بلدیاتی نمائندوں نے اپنا وقت اور بے انتہا پیسہ لگایا مگر آج7 ماہ گذر جانے کے باوجود اْن کی سمت کا کچھ پتہ نہیں۔ حکومت نے جو انتخابی وعدے کئے اگر وہ پورے ہو جائیں تو ایک معجزہ ہو گا۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب حکومت نے اختیارات کو نیچے منتقل نہیں کرنا تھا تو پھر یہ سب کچھ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے یہ نام نہاد جمہوری نمائندے تمام فیصلے ڈکٹیٹر کی طرح کرتے ہیں ،پارلیمنٹ کا کردار بھی برائے نام ہے۔جب کام پھر ایم این اے اور ایم پی اے نے کرانے تھے تو پھر یہ سب کچھ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ پاکستان کا ایک متفقہ آئین بھی ہے۔ قانون بھی ہے۔ محکمہ جات بھی قائم ہیں۔ مسائل کا گلہ دبانے کے لیے مجاز افسران بھی ہیں۔ قدغن لگانے، جرائم کی روک تھام، عوامی شکایات کے ازالے اور عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے ادارے اور منتخب نمائندے بھی موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود سسٹم ڈلیور نہیں کر رہا۔ عوامی مسائل جوںکے توں برقرار ہیں۔ ترقیاتی فنڈز کا معاملہ ہو، بنیادی ضروریات کی بات ہو یا پھر عام آدمی کی مشکلات ہوں اس نظام سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا۔
کیوں نہیں مل رہا؟ اس کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں اور ہیں بھی، مگر اس کی سب سے بڑی وجہ اختیارات کی نچلی سطح پر عدم منتقلی ہے۔ مرکز صوبوں اور صوبے اضلاع کو اختیارات منتقل نہیں کر رہے۔ یہ عجیب تضاد ہے اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعہ وفاق سے صوبوں کو اختیارات تومنتقل کر دئیے گئے۔ اس کارنامے پرخوشی کے شادیانے بھی بجے، مگر مرکزی حکومتیں مقامی حکومتوں کو اختیارات منتقل کرنے سے پہلو تہی کررہی ہیں۔ حکومت کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے، ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے حکومت اختیارات کو نیچے منتقل کرنے میں سنجیدہ نہیں، حکومت صرف اپنا وقت گذار رہی ہے، جاگیردارانہ ذہنیت کی حامل ہماری حکمران اشرافیہ کسی قیمت پر عوامی نمایندوں کو اقتدار کا حصہ بننے نہیں دینا چاہتی، بلدیاتی نظام عوام کو اقتدار کا حصہ بنا دیتا ہے اور بلدیاتی نظام اس وقت تک اقتدار کا حصہ نہیں بن سکتا جب تک انتظامی اور مالی اختیارات بلدیہ کے منتخب نمایندوں کے ہاتھوں میں نہ آئیں۔ بلدیاتی نمائندوں نے 2 ماہ تک الیکشن مہم چلائی اور پھر اس سے بھی بڑھ کر اتنے زیادہ اخراجات کئے۔ وہ ٹھیکیداروں کے ساتھ مل کر عوامی بجٹ میں سے اپنا حصہ وصول کرے گا۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ کرپشن کے خلاف آواز حق بلند کریں دْوسری طرف ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں کہ کرپشن کرنے کی کھلی چھٹی دی جا رہی ہے۔ بلدیاتی نظام اصل میں عوام کو ریلیف پہنچانے کے لئے ہے مگر اس پر عمل نہیں کیا جا رہا۔ ایم این ایز، ایم پی ایز کا کام قانون سازی کرنا ہوتا ہے مگر وہ گلیاں پکی کرانے اور تبادلے کرانے پر مامور ہو جاتے ہیں۔
وہ اسمبلی جاتے ضرور ہیں، لاکھوں روپے کی مراعات بھی حاصل کرتے ہیں مگر وہ وہاں چپ کا روزہ رکھ کر جاتے ہیں، عوام کی خاطر کوئی آواز بلند کرنے کو تیا رنہیں۔ بلدیاتی نمائندے گلی، محلے اور گاؤں کی سطح پر جا کر خاص و عام تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں مگر ان کو اگر بااختیار بنایا جائے اور ان سے کام لیا جائے تو پھر یقینی طور پر عوامی منصوبوں کو مکمل کرنے میں آسانی ہو سکتی ہے مگر یہاں تو بیچارے بلدیاتی نمائندوں کو کوئی پوچھنے کے لئے تیار نہیں۔ 7ماہ میں کم از کم اتنا تو ضرور ہو گیا کہ ان سے حلف تو لے لیا گیا۔ ابھی تک مخصوص نشستوں، ڈسٹرکٹ چیئرمین اور میونسپل کمیٹی چیئرمین کا انتخاب مکمل نہ ہو سکا۔ اس پر بھی ابھی تک تلوار لٹک رہی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح حکومت نے اڑھائی سال گذار لئے، باقی اڑھائی سال بھی انتظار میں گذر جائیں ۔اس وقت ہزاروں کی تعداد میں بلدیاتی نمائندے منتخب ہوئے، اگر ان تمام نمائندوں سے میرٹ پر کام لیا جائے اور ان کو وسیع تر اختیارات دئیے جائیں تو یقینی طور پر عوام کو بہت بڑا ریلیف مل سکتا ہے، لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے جو ٹینڈر ٹی ایم اے اور ضلعی حکومت سے منظور ہوتا ہے اْس میں من پسند ٹھیکیداروں کو سامنے لایا جاتا ہے اور کچھ نام تو ایسے ہیں جو کہ صرف فرضی نام ہوتے ہیں اور اْن کو ٹھیکیدار بنا دیا جاتا ہے، اصل میں مقصد صرف ایک ہوتا ہے کہ کس کس کو کہاں کہاں اور کس طرح نوازنا ہے،
لیکن قائداعظم کے پاکستان کا کسی کو کچھ خیال نہیں ہوتا آخر یہ کب تک خوبصورت پاکستان کے ساتھ ایسا کرتے رہیں گے۔ گلیاں اور نالے بھی انہی کے پکے کرائے جاتے ہیں جن کا پتہ ہو کہ وہ ہمارے ساتھی ہیں ورنہ ایک عام آدمی کی چھوٹی سی گلی پکی کرانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس وقت حالات انتہائی بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ مقامی سطح پر لوگوں کی برادریوں میں انتہائی ناراضگیاں پیدا ہوئیں، ووٹ تقسیم ہوئے، انتظامی مشینری نے بڑا فعال کردار ادا کیا، کئی اضلاع میں پاکستان آرمی کو متحرک کیا گیا۔ یوں کہئے کہ غریب عوام کا ایک بہت بڑا بجٹ ان بلدیاتی انتخابات پر لگایا گیا لیکن اْس کا نتیجہ کیا نکلا ابھی تک سیاہ بادل ہیں کہ چھٹنے کا نام نہیں لیتے۔ آخر کب یونین کونسل سطح اور میونسپل کمیٹی سطح پر منتخب شدہ نمائندے اپنا فعال کردار ادا کریں گے۔ حالات بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہیں اور جن نمائندوں نے اپنی اپنی جماعت کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے لاکھوں روپے جمع کرائے وہ بھی ایک ایسی کیفیت میں ہیں جس کا اْن کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
تحریر :سجاد علی شاکر
sajjadalishakir@gmail.com
03226390480