تحریر : ساجد حسین شاہ
آرمی پبلک سکول پشاور میں تقریبا صبح دس بجے تک زندگی رواں دواں تھی بچوں نے دن کا آغاز تلاوت قرآن پاک اور قومی ترانے سے کیا ہو گا کچھ بچو ں کے دل میں امتحان اور ٹیسٹ کا خوف ہو گا اور کچھ بچے گزرے ہوئے دن کی آپ بیتی ایک دوسرے کو سنانے میں مصروف ہوں گے کلاسز حسب معمول چل رہیںتھی اور استاذہ علم کی شمع روشن کر رہے تھے کہ اس بدقسمت سکول میں چھ سات حیوان نما دہشت گرد داخل ہوئے بس پھر کیا تھا کہ ہر طرف گولیوں اور دھماکوں کی آوازیں گوجنے لگیں ایک قیامت صغرٰی تھی جو برپا ہو گئی یہ خبر نزدیکی علاقوں میں آگ کی طرح پھیل گئی وہ مائیں جنہوں نے صبح خود اپنے ہاتھوں سے بچوں کو تیار کر کے سکول بھیجا تھا وہ پاگلوں کی طرح سڑ کوں پر بھاگ رہیںتھیںاپنے جگر گو شوں کی ایک نظر دیکھنے کو بیقرارتھیں آج بچوں کے وا لدین سکول کے باہر کسی چھٹی کی گھنٹی کا انتظار نہیں کر رہے بلکہ اس امید پر کھڑے ہیں کے شاید انکا لخت جگر بھاگ کر آئے گا اور ان کے بے تاب سینوں کو ٹھنڈک پہنچائے گا وہ مائیں دنیا سے لا پرواہ سکول کی ہر سمت دوڑ رہیں تھیں انکے بس میں نہیں تھا کہ اڑ کر سکول کے اندر جا پہنچیں اور اپنے بچوں کو ان درندوں سے محفوظ کر لیں مگر افسوس وہ ایسا نہ کر سکیں ان ظالموں نے کئی مائوں کی گود یںاجاڑ دیں
سانحہ پشاور میں معصوم بچوں کی شہادت نے سارے ملک کو افسردہ کر دیا بلکے ان معصوموں کے خون نے پاکستان ہی کیا پوری دنیا کے انسانوں کی آنکھیں نم کر دیں شاید ہی کو ئی آ نکھ ہو جو اشک با ر نہ ہوئی ہواس میں کوئی شک نہیں کے غم سے نڈھال صرف شہداء کا گھر نہیں پورا پاکستان ہے سعودی عرب میں نے لوگوں کو ایک دوسرے کے گلے مل کر روتے دیکھا سب ایک دوسرے کے ساتھ تعزیت کر رہے تھے یہ سماں تھا کہ جیسے ہر گھر میں میت پڑی ہو اپنے دیس سے دوری دل کو اتنا کمزور کر دیتی ہے کہ اپنے ملک میں چھوٹا سا واقعہ کئی دن تک ہنسنا بھولا دیتا ہے مگر یہ تو ایک الم ناک سانحہ ہے اپنے ملک میں ہم پاکستان کو برا بھلا بڑی آسا نی سے کہہ دیتے ہیں مگر پردیس میں اگر کو ئی ہما رے ملک کا نام کسی غلط نسبت سے لے تو اس کی آ نکھیں اور زبان نو چنے کو دل کر تا ہے غصّے سے خون کھولنے لگتا ہے
یا مختصر یوں کہوں تو ملک کی محبت میں بے پناہ اضافہ ہو جا تا ہے 132سے زیادہ ہنستے کھیلتے پھول جن کے دل میں سہا نے مستقبل کے خواب اورو ہونٹوں پر معصوم خواہشات تھیں انہیں ان وحشی درندوں نے اپنی درندگی کے بھینٹ چڑھا کر ہمیشہ کے لیے چپ کر وا دیا میں سوچتا ہوں کہ یہ کیسے لوگ تھے جو مسلمان تو دور کوئی انسان بھی یہ کر نے کی جرأت نہیں کر سکتا کیا ان کے دل میں ذرا بھی خوف خدا نہ ہو گا یا ان کے زہنوں کو کس طرح تربیت دی ہو گی کہ یہ وحشیانہ حرکت کرتے ہوئے وہ ذرا بھی نہ سہمے جب بھی ٹی وی پر یہ مناظر دیکھتا ہوں تو آنکھ ہی کیا دل بھی خون کے آ نسوں روتا ہے ان معصوم بچوں کو کن نہ کردہ گناہوں کی سزا دی گئی وہ تو اس معاملے سے بلکل بے خبر تھے وہ تو اچھے سے یہ بھی نہیں جانتے تھے کے یہ دہشت گردی کیا ہے جس کی بھینٹ انھیں چڑھایا جا رہا ہے لیکن یہ معصوم شہداء ہمیں ایک نیا عزم دے گئے
انکی اس قر با نی نے آج پوری قوم کو یکجا کر دیا جو اس سانحے سے پہلے تک بہت سے سیاسی اور مذ ہبی گرہوں میں تقسیم تھی لیکن معلوم نہیں ہمارا یہ اتفاق کتنے دن تک قا ئم رہے گا کیونکہ ہم بھول جا نے کی بیماری میں شدت سے مبتلا ہیں افسوس اس بات کا ہے کہ آیا ہمیں ایک ہونے کے لیے ایسے المناک واقعہ کے رونما ہونے کا انتظار تھا اس سے پہلے ہم میں یہ اتحاد کیوں نہ قائم ہوا ہم تو یہ جنگ پچھلے کئی برسوں سے لڑ رہے ہیں آج ہمیں اپنی دوغلی پالیسیوں کو ختم کر کے ایک نقطے پر متفق ہونے کی اشد ضرورت ہے کہ کسی بھی طرح اس دہشت گردی کی لعنت کو اپنے وطن عزیز سے ہمیشہ کے لیے ختم کر نا ہے مجھے آج ایک جماعت کے رہنما کے وہ الفاظ یاد آ رہے ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ طالبان ہمارے بچے ہیں میں ان صاحب سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کے ان بچوں نے ہماری قوم کے معصوم بچوں پر حملہ کیا ہے یہ بزدل پاکستان کے مستقبل پر حملہ آ ور ہوئے ہیں یہ وحشی درندے کسی محب الوطن پاکستانی کے بچے نہیں ہو سکتے ان کا ہم سے اور ہمارے ملک سے کوئی تعلق نہیں ایک طرف دہشت گردی کو ختم کرنے کی باتیں اور قوم کے سامنے ایسے واقعات کی مذمت اور دوسری طرف ایسے دہشت گردوں کی نمازے جنازے میں شرکت کیا یہ کھلی منافقت نہیں
اب ہماری تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو ایک نقطے پر متفق ہو نا ہوگا اگر ہم آ ج بھی متفق نہ ہوئے تو یہ ذلالت ہمیشہ کے لیے ہمارے اوپر مسلط کر دی جائے گی اب ہمیں اس بحث سے کنارہ کشی کرنا ہو گی کہ اس سے پہلے کیا ہوا کس وجہ سے یہ دہشت گرد اتنے منظم ہوئے کن عوامل نے انھیں اتنا مظبوط کیا کہ وہ آ ج ہمارے گھروں میں گھس کر ہمارے بچوں کو نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ اب صر ف یہ لائحہ عمل اپنانا ہو گا کہ دہشت گردی کہ اس نا سور کو کیسے اس پاک سرزمین سے نا پید کر دیں بہت سے علماء کرام نے اس واقعے کی کھلے الفاظ میں مذمت کی جب کے کئی دینی حلقوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں مذمت کی جب کہ کچھ نے تو بڑی ڈھٹائی سے مذمت کرنے سے انکار کر دیا ایسے علماء کرام کے بیان ایک space پیدا کر دیتے ہیں جو مجھ جیسے کم علم اور کمزور ایمان والوں کے قدم ڈگمگا دینے کے لیے کافی ہیں اور پھر ہم یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ کون صحیح اور کون غلط ہے۔اسلام ہی کیا دنیا کا کوئی مذہب ایسے اقدامات کی حمایت نہیں کرتا اسلام تو امن کا دین ہے اسلا م کھلے الفاظ میں ایسے واقعات کی مذمت کر تا ہے کیونکہ ہر جنگ کے کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں ہمیں ایسے لوگوں کی نشاندہی کرنا ہو گی اور اان کا مکمل بائیکاٹ کرنا ہوگا کیونکہ یہ جنگ صرف حکومت اور پاک فوج کی نہیں بلکہ پوری قوم کی جنگ ہے9/11 کے واقعے کے بعد امر یکی شہریوں نے اپنی سیکورٹی فورسز کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جس کی وجہ سے دوبارہ ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا اس لیے اب تمام پاکستانیوں کو اپنی آنکھیں کھولنا ہوگی اور ایسے تمام عناصر کو ریڈ مارک کرنا ہو گا جو ان دہشت گر دوں سے روابط یا سہولت کار یا ان کے لیے دلوں میں ہمدردیاں رکھتے ہیں،یہ بات بھی قابل رشک ہے کہ ہماری سیکورٹی فورسز نے کامیاب آپریشن کرکے ان دہشت گر دوں کو پسپا کیا ہے اور ان کے انفا سٹرکچرکو پاک سرزمین پربری طرح متاثر کیا ہے اور ان کے کئی اہم رہنمائوں کو موت کی ابدی نیند سلا دیا ہے جسکا اعتراف تحریک طالبان پاکستان بھی کر چکی ہے اللہ کے فضل وکرم سے ان دہشت گردوں میں وہ قوت باقی نہیں رہی کے یہ ہماری بہادر افواج کا سامنا کر سکیں
اس لیے یہ لوگ اب ان بزدلا نہ ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیںجو انشااللہ ان کے لیے مزید ناکامیوں کا سبب بنیںگے بہت سے طالبان اور ان کے ساتھی پاکستان میں شکست خوردہ ہو کر افغانستان میں پناہ گزیر ہو گئے ہیںاور وہاں سے ہمارے معصوم اور بے گناہ شہریوں کو ٹارگٹ کرنے پر عمل پیرا ہیںافواجِ پاکستان کو پاک افغان باڈر اتنا secureکرنا ہوگاکہ کوئی دہشت گرد ہماری پاک سرزمین پر اپنے ناپاک قدم نہ رکھ سکے اور افغان حکومت کو اب یقین دہانی اور مذمت سے آگے بڑھ کر ان دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے افواجِ پاکستان کا ساتھ دینا ہوگایہاں میں اپنی قومی قیادت کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے عوام کے جذبات کو سمجھتے ہوئے سزائے موت کو بحال کیاتا کہ ہماری جیلوں میں موجود دہشت گردوں کو ان کے کیفے کردار تک پہنچایا جا سکے اور اگر یہاں میں عمران خان صاحب کا شکریہ ادا نہ کروں تو زیادتی ہو گی کیونکہ اس المناک گھڑی میں انہوں نے سیاست کے بجائے عوام کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے ملکی یکجہتی کو ترجیح د ی اور تحریک انصاف کا دھرنا ختم کرتے ہو ئے ہمیں مزید سیاسی انتشار سے بچا لیا۔
آو مل کر پھر سے دعائے بہار کریں
مرجھا گئے کئی پھول آج شہر میں
تحریر : ساجد حسین شاہ
engrsajidlesco@yahoo.com