تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
لاہور مین عیسائیوں کے دو گرجا گھروں پر خودکش حملے انتہائی بزدلانہ کار وائی ہے جس کی پاکستان کے ہر طبقہ ءفکرچاہے علماءہیں یا سیکولر،سیاسی ہیں یا میڈا پرسن کی جانب بھر پور مذمت بھی کی جا رہی ہے اور یہ واقعہ ہے بھی قابلِ مذمت اور بزدلانہ۔جس میں 16، افراد ہلاک (جن میں تین مسلمان پولیس والے بھی شامل ہیں)اور 85، کے قریب افراد زخمی ہوئے ہیں اس کے ساتھ ہی دونوں گرجوں پر حملہ کرنے والے خود کش بمبار جن کی عمریں 20، سے 22، سال بتائی جاتی ہیں بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔ان حملہ آوروں کو روکنے والے تین مسلمان پولیس اہلکار شہید اور 4، شدید زخمی بتائے جاتے ہیں۔جس کے بعد ان لوگوں نے لا قانونیت کی ایسی مثال قائم کر دی ہے کہ جس کی مذمت ہی کی جا سکتی ہے۔اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ پاکستان میں ایک گروہ نے عیسائیوں کو اپنا ایجنڈا مکمل کرنے کے لئے بھر پور طریقے پر استعمال کرنا شروع کیا ہوا ہے۔ اُس گروہ کے اپنے قاتل اور لٹیرے تو قابو میں ہیں نہیں۔ایجنسیاں جانتی ہیں کہ ان کالی بھیڑوں کی ڈوریاں را ہلا رہی ہے تا کے ان کے اوپر آنے والی ناگہانی چھان بین کو رکوایا جاسکے۔اور ان کے ماضی کے دھندے اُسی طرح چلتے رہیں اور پاﺅ نڈ اسٹرلنگ اکٹھے ہوتے رہیں۔ جو لوگ آنِ واحد میں 258، افراد کو آگ اور خون میں نہلا سکتے ہیں اور اُس پر وا ویلا کر سکتے ہیں۔اُن کے لئے را کے ذریعے دس پندرہ عیسائیوں کو مروا کر وا ویلا کرنا کیا مشکل بات ہے؟
ان حملوں کے بعد تحریر شدہ ایجنڈے کے تحت ان معصوم اللہ میاں کی گائینوں نے باقاعدہ تشد اور جلاﺅ گھراﺅ کا کھیل شروع کر دیا ۔سرکاری املاک جس میں میٹروبس سروس ٹرمنل اور اس میں بنی مسلمانوں کی دوکانوں کو توڑنا ،مسلمانوں کی املاک کو تباہ کرنا شروع اس طرح کیا ہے کہ جیسے حکومت ان پر حملوں کی ذمہ دارہے۔ہزاروں مشتعل عیسائیوں نے پورے لاہور کو دہشت و بر بریت کا نشان بنا دیا۔امریکہ برطانیہ اور مغرب کے انتہا پسند دیکھیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کی تعلیم یہ ہے کہ”اگر تمہارے ایک گال پر کوئی تھپڑ مارے تو اپنا دوسرا گال بھی ہیش کردو “ کیا حضرت عیسیٰ اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ کسی بے گناہ پر بہیمانہ تشدد کر کے اُن کی لاشوں کو جلا دیا جائے؟؟؟یہ فلک نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ اُن کے ہزاروں پیرو کاروں نے پاکستان میں کس دہشت گردی اور درندگی کا مظاہرہ کیا ہے۔کہ دو نوجوان مسلمانوںکوان میں سے ایک ان کے پاڑے یوحنا آباد میں ہی شیشے کی دوکان چلا رہا تھا ۔پہلے ہزاروں لوگوں نے ان نوجوانوں کو کیلوں لگے ڈنڈوں،لاٹھیو اور پتھروں سے مار مار کر لہو لہان کر کے ادھ مرا کردیا، اور پھر ان عیسائی دہشت گردوں نے ان بے گناہ نوجوان مسلمانوں کو پیٹرول چھڑک کر زندہ جلا دیا اور پانچ گھنٹوں تک پولیس کو ان لاشوں تک نہیں پہنچنے دیا گیا۔ان متشدد مظاہرین نے پولیس اہلکاروں کو بھی نہیں بخشا ۔کئی پولیس اہلکاروں کو بھی گھیرے میںلے کر ان پر بھی کئی گھنٹوں تک تشدد کرتے رہے ۔ یہ ہیں پیارے عیسیٰ ؑ کے پیرو کار!!!جو آج پاکستان میں بھی اپنی اصلیت دکھانے سے باز نہیں آرہے ہیں۔ہمارے سر چڑھائے یہ لوگ جنہیں ہر پاکستانی عزت دیتا رہا تھا ۔آج انہوں اپنی حرکتوں سے حکومتِ پاکستان کو بھی بلیک میل کرنا شروع کیا ہوا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا ایک دہشت گرد گروہ ان کا پشتِ پناہ ہے۔ جس کے بل بوتے پر یہ پورے پاکستان میں جلاﺅ گھراﺅ کا کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔تاکہ ہر جانب انتشار پھیل جائے۔اور ادارے اپنا کام چھوڑ چھاڑ کر اس جانب متوجہ ہو جائیں۔
جبکہ پاکستان کا ہر مسلمان پاکستان میں اقلیتوں کا دل سے احترام کرتا ہے۔ان کے ہر دکھ سکھ میں ان کے شانہ بشانہ کھڑا رہتا ہے۔ہم پاکستان میں رہنے والے ہر شخص کو ایک مسلمان پاکستانی جیسا ہی احترام دیتے ہیں اور آج بھی ہر پاکستانی مرنے والوں کے خاندانوں کے دکھ میں برابر کا شریک ہے۔مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جنہیں ہم اپنا لہو پلا کر پال رہے ہیں وہ ہی آستین سے نکل کر ہمیں ڈسنا شروع کر دیں اور ہمیں سوختہ لاشیں دینا شروع کردیں۔اس بھیانک جرم کے باوجود بھی ہم ان سے دست بستہ کہتے ہیں کہ خدارا کسی گھناﺅنے کھیل کا حصہ نہ بنیں ۔کیونکہ ہاتھیوں کی لڑائی میں ہمیشہ کھیت ہی کا نقصان ہوتا ہے۔
ایم کیو ایم نے ان افسوسناک حملوں کی مذمت کی انتہائی اچھی بات ہے۔آپ نے پھول بچھا کر موم بتیاں جلا کر مرنے والوں کو غالباََ ایصٓالِ ثواب ہی پہنچایا ہوگا بہت اچھا فعل ہے۔مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان کے دہشت گردوں نے دو مسلمان نوجوانوں کوزندہ جلا کر ان کے خاندانوں کو جو سوختہ لاشیں دی ہیں اُن پراس جانب سے کسی تاسف تک کا اظہار نہیں کیا گیا!!!یہ امر سوالیہ نشان بنا رہا ہے۔
آج انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اس بربریت پراپنے سیاہ چہرے کیوں نہیں دکھا رہی ہیں۔
آج انسانی حقوق کے علمبردار وں کو کیا سانپ سونگھ گیا ہے۔گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخیں نکالنے والے آج کیوں خاموش ہیں۔آج ویٹکن سٹی کیوں گونگا ہوا بیٹھا ہے۔آج پوپ کی آواز کن دھندھلکوں میں بھٹک رہی ہے؟ہم دنیا میں تمہاے لوگوں کا تشدد ایک عرصہ سے برداشت کر رہے ہیں۔آج تمہارے کیڑے مکوڑے بھی مسلمانوں کے پاکستان میں بھیانک کھیل میں مصروف کر دیئے گئے ہیں۔ حالانکہ ہم پاکستانیو ں کا یہ گمان ہوا کرتا تھا کہ پاکستان کی عیسائی کمیونیٹی پر امن ہے۔
مگر اب نہیں!!!
اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ ان گرجوں پر حملے سکیورٹی لیپس ہیں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دو ماہ قبل وزارت داخلہ اس بات پر پولیس کو الرٹ کر چکی تھی کہ اقلیتی عبات گاہوں پر دہشت گرد حملے ہوسکتے ہیں ۔تو پھر اس بات پر پولیس حکام نے کیوں بھر پور توجہ نہ دی؟گرجوں پر ان حملوں کے ذمہ دار، دہشت گرد تو ہیں ہی مگر پولیس کو بھی اس معاملے میں کلین چٹ نہیں دی جا سکتی ہے۔پنجاب حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ متعلقہ حکام کو انصاف کے کٹہیرے میں لاکر ضرور ان کا احتساب کرے۔ تاکہ آئندہ ایسے بھیانک کھیل کھیلنے کی نوبت نہ آئے۔
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir4khurshid@gmail.com