اسلام آباد (ویب ڈیسک) ایک وقت وہ تھا جب پشتونخوا ملی عوامی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کے پیروکار پشتو زبان میں یہ نعرہ لگاتے تھے ’محمود خانہ توپ لنگر کہ، پر پنجاب یے برابر کہ‘، جس کا مطلب تھا کہ ’محمود خان توپوں کا رخ پنجاب کی طرف کرنا۔۔۔‘ لیکن ایک وقت یہ ہے کہ نامور صحافی خدائے نور ناصر بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی بیٹی مریم نواز شریف پورے پاکستان کے جلسے جلوس چھوڑ کر کوئٹہ میں اپوزیشن کے مشترکہ جلسے میں شریک ہوتی ہیں اور وہ بھی محمود خان اچکزئی کی دعوت پر۔ یہی نہیں، جب 1980 کی دہائی کے آخر میں پیپلز پارٹی کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد یا آئی جے آئی بنی تھی اور میاں نواز شریف اسی سلسلے میں کوئٹہ گئے تو شاید محمود خان اچکزئی کی واحد پارٹی تھی جنھوں نے میاں نوازشریف کا استقبال کالے جھنڈوں سے کیا تھا۔ اگرچہ محمود اچکزئی کے نوازشریف کے ساتھ مشرف دور سے پہلے بھی تعلقات تھے اور کئی سیاسی جوڑتوڑ میں اُن کی نہ صرف ملاقاتیں ہوئی تھیں، بلکہ محمود خان اچکزئی سمجھتے ہیں کہ نوازشریف نے اُس وقت بھی اُن کے کئی مشوروں پر عمل کیا تھا۔ لیکن یہ دوستی فروری 2006 میں مسجد نبوی میں اُس ملاقات کے بعد گہری ہوئی جو حج کے دوران دونوں رہنماوں کے درمیان ہوئی تھی۔ اُس وقت سابق وزیراعظم نوازشریف سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے اور محمود اچکزئی فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے گئے تھے۔ اس ملاقات میں میاں نوازشریف نے محمود اچکزئی سے صرف یہ کہا تھا کہ وہ اس شام لندن جا رہے ہیں، جس کے جواب میں محمود اچکزئی نے اُن سے کہا تھا کہ وہ بھی اگلے دن ہی لندن پہنچ جائیں گے۔ لندن میں محمود اچکزئی نے نواز شریف سے ملتے ہی اُنھیں سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو کے ساتھ پاکستانی سیاست اور آئندہ کے لائحہ عمل پر بات چیت کرنے کا مشورہ دیا۔ میاں نواز شریف نے پہلے تو بےنظیر بھٹو کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کیا تاہم بعد میں راضی ہوگئے۔ ’مجھے اچھی طرح یاد ہے، کیونکہ میں نے میاں صاحب کے ساتھ یہ ذکر شروع کرتے وقت اپنی گھڑی کو دیکھا تھا اور مجھے 17 منٹ لگے کہ میں نے میاں صاحب کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ بےنظیر بھٹو کے ساتھ بیٹھیں گے۔‘ محمود اچکزئی کے مطابق اِس کے بعد میاں نواز شریف نے شہباز شریف کو لگ بھگ دو ماہ بعد بےنظیر بھٹو کے پاس دبئی بھیجا اور بعد میں چارٹر آف ڈیموکریسی کی شکل میں دونوں پارٹیز کا معائدہ ہوا۔ 2008 کی عام انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ اپوزیشن میں تھی، تو پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بھی اپوزیشن میں رہی۔ تاہم 2013 کی انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ حکومت میں آئی تو پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے بلوچستان میں نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ کے ساتھ حکومت بنائی۔ اور یوں شریف اور اچکزئی کی دوستی چلتی رہی۔ جب دسمبر 2017 میں محمود خان اچکزئی کے والد خان عبدالصمد خان اچکزئی کی برسی میں سابق وزیراعظم نوازشریف نے شرکت کی، تو اس دورے کے فوراً بعد بلوچستان میں مسلم لیگ، پشتونخوا میپ اور نیشنل پارٹی کی مخلوط حکومت گرا دی گئی۔ محمود اچکزئی اور اُن کی اتحادی جماعتیں اُن کی حکومت گرانے کا الزام اسٹیبلشمنٹ پر ڈالتی ہیں۔ محمود خان اچکزئی سمجھتے ہیں کہ میاں نواز شریف جب سے ’نظریاتی‘ بنے ہیں، اُن کی راہیں ایک ہوئی ہیں۔ وہ اپنے جلسوں میں یہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں اداروں کی مداخلت تب بند ہوسکتی ہے جب پنجاب سے آئین کی بالادستی کے لیے کوئی آواز اُٹھے گی اور اُن کی نظر میں یہ آواز اب لاہور سے میاں نواز شریف کی شکل میں اُٹھ چکی ہے۔