اُن بچوں کی عمریں بالترتیب 7، 10 اور 12 سے 13 سال کے لگ بھگ تھیں۔ ممکن ہے کہ ایک آدھ سال کا فرق ہو مگر میرا اندازہ یہی ہے کہ وہ بچے اس سے بڑے نہیں ہوں گے۔ تینوں بچے مجھ سے کچھ دور اسی پُر ہجوم سڑک پر ایک موٹر سائیکل پر سوار اڑتے چلے جا رہے تھے، یہ اُڑنے کا لفظ اسکوٹر کی رفتار کی وجہ سے استعمال کیا۔ موٹرسائکل چلانے والا بچہ بمشکل 13 سال کا ہوگا جبکہ پیچے بیٹھے دونوں چھوٹے ننھے مُنے بچوں نے اُسے کمر سے پکڑ رکھا تھا۔
اُن کی رفتار اتنی تیز تھی اور موٹر سائکل چلانے کا انداز ایسا خطرناک کہ ایک لمحے کو تو میں یہ سوچ کر ڈر ہی گیا کہ خدا نخواستہ اگر ان بچوں کو کہیں کوئی حادثہ پیش آگیا تو کیا بنے گا؟ میں نے جلدی سے اپنی بائیک کی رفتار بھی بڑھا دی، جو کہ پہلے بھی کچھ کم نہ تھی، جلدی سے ہجوم کے درمیان راستہ بناتا ہوا ان بچوں تک پہنچا اور اسکوٹر چلانے والے بچے کو مخاطب کر کہا ’’کم کرو اس کی رفتار‘‘، کوئی حادثہ کرنے کا ارادہ ہے کیا؟ میرے سخت لہجے کی وجہ سے بڑی مشکل سے اُس بچے نے رفتار کم کی۔ سخت لہجے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مجھے اُس بچے پر شدید غصہ آرہا تھا اور اُس اسکوٹر چلانے والے سے کہیں زیادہ غصہ تو اُس کے والدین پر آرہا تھا جنہوں نے اپنے ایک نہیں، دو نہیں، تین تین بچوں کو اس شیطانی چرخے پر سوار کرکے انتہائی پُرہجوم سڑک پر جھولے لینے یا کسی اور کام سے بھیج دیا تھا۔
کیسے والدین تھے جنہیں اس بات کا قطعی احساس اور ذرا پرواہ نہ تھی کہ اب سڑک پر ٹریفک کس قدر بڑھ چکی ہے اور سڑکوں پر کتنا رش رہتا ہے۔ بڑے بڑے منجھے ہوئے اور محتاط ڈرائیونگ کرنے والے بھی کہیں نہ کہیں کوئی چوٹ کھا بیٹھتے ہیں، اور یہ تو پھر نادان بچے تھے۔
ابھی کچھ روز پہلے ہی کی بات ہے، گلی میں پیدل چلتا ہوا آرہا تھا کہ ایک اسکوٹر اچانک سے اچھلی اور کچھ آگے جا کر رُک گئی۔ میں نے حیران ہو کر دیکھا کہ یہ کون اسکوٹر پر وہیلنگ کا تماشہ کر رہا ہے؟ دور سے صورتحال دیکھی تو حیرانی سے آنکھیں پھٹی رہ گئیں کہ اسکوٹر پر ایک پختہ عمر کے صاحب بیٹھے نظر آئے۔ لیکن جب کچھ آگے پہنچا تو ساری صورتحال واضح ہوئی۔ اُن کے آگے ایک 13، 14 سالہ بچہ بیٹھا ہوا تھا۔ موصوف اس کم عمر بچے کو پیچھے بٹھا کر موٹر سائیکل چلانا سکھا رہے تھے۔ ایسے والدین پر ترس سے زیادہ غصہ آتا ہے جو اپنے بچوں کی محبت میں ہر جائز و ناجائز کام کرجاتے ہیں۔ اسکوٹر چلانے کی ایک عمر مقرر ہے، اور 18 سالہ بچہ لائسنس یافتہ ہوکر اسکوٹر چلانے کا شوق پورا کرسکتا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ جن والدین کی ذمہ داری انے بچوں کو یہ ساری باتیں سمجھانا ہوتا ہے وہی اپنے بچوں سے یہ سارے غلط کام کرواتے ہیں جن کی وجہ سے اکثر نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
ایسی صورت میں قانون نافذ کرنے والے ادارے جب قانون کی خلاف ورزی پر ان بچوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو والدین قانون کی حفاظت کرنے پر اہلکاروں کی ستائش کرنے کے بجائے غلط کام کرنے کے باوجود بچوں کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں اور جن والدین کی پہنچ اوپر تک ہوتی ہے وہ سفارش کے ذریعے اپنے بچوں کو باآسانی چھڑوا لیتے ہیں۔ ایسی صورت میں بچوں کا حوصلہ مزید بڑھ جاتا ہے اور وہ دل کھول کر قانون کی دھجیاں یہ سوچ کر بکھیرتے ہیں کہ انہیں چھڑوانے کے لیے اُن کے والدین آجائیں گے۔
میں نے اپنے کئی جاننے والوں کے بچوں کے ٹریفک حادثات کی کہانیاں سُنی ہیں۔ جن میں اُن کے نو عمر، اسکولوں، کالجوں میں پڑھنے والے بچے اسکوٹروں کے حادثات میں زخمی یا فوت ہوئے بلکہ بہت سے حادثات خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ میری طرح آپ نے بھی ایسے واقعات کے بارے میں سنا ہوگا اور ممکن ہے کہ خود بھی ایسے حادثات دیکھیں ہونگے۔ ایسی صورت میں آپ خود فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں کہ کیا ایسی عمروں کے بچوں کے لئے اسکوٹر جیسی خطرناک سواری کا چلانا ٹھیک عمل ہے یا نہیں۔
پہلے کے وقتوں میں جب بچے امتحانات میں اچھے نمبر لیتے تھے تو والدین انعام میں جوتے کپڑے بنا کردیا کرتے تھے یا ایک عدد اچھی سی سائکل دلا دیا کرتے تھے، لیکن اب تو نہ صرف بچوں بلکہ والدین کی سوئی بھی اسکوٹر سے نیچے رُکتی ہی نہیں۔ جو والدین نقد لے کر دینا افورڈ نہیں کرسکتے وہ قسطوں پر لے دیتے ہیں، جبکہ جو افورڈ کرسکتے ہیں اُن کے تو کیا ہی کہنے۔ بچے تو خوش باش ہو ہی جاتے ہیں لیکن والدین بھی یہ سوچ کر نہال ہوجاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بچوں کی ایک اور خواہش پوری کردی، حالانکہ وہ یہ بات نہیں جانتے کہ انہوں نے کم عمری میں بچوں کو موٹرسائیکل کا تحفہ دیکر اپنے ہی بچے کو خدانخواستہ موت کے منہ میں بھیج دیا ہے۔ نہال ہوتے جاتے ہیں۔
میرا پہلا ایکسیڈنٹ اسکوٹر پر جو ہوا اُس کی وجہ بھی میری اپنی نادانی ہی تھی۔ میں بارش میں بھیگی پھسلن زدہ سڑک پر اسکوٹر کو بل دیتا، گھماتا چکراتا لے جارہا تھا اور اچانک بائیک گیلی سڑک پر بھسلی اور میں موٹر سائیکل سمیت سیدھا ایک کھمبے سے جا ٹکراگیا۔ اُس وقت تو سارا قصور اُس منحوس کھمبے کا محسوس ہورہا تھا تھا جو کہ اچانک سے سامنے آگیا لیکن اب احساس ہوتا تھا کہ غلطی اپنی ہی تھی کہ نہ تو وہ عمر تھی ابھی موٹر سائیکل چلانے کی اور نہ ہی وہ طریقہ ٹھیک تھا۔
والدین کا اپنے بچوں سے پیار کرنا، اُن کی ضروریات کا خیال کرنا بجا ہے بلکہ یہ اچھی بات ہے لیکن اُن کے لئے کیا اچھا ہے کیا برا، کس شے کی کس عمر میں ضرورت ہے اس بات کا خیال کرنا والدین کے لیے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ اگر جائز و ناجائز خواہشات میں تمیز کئے بغیر سب کچھ بچوں کے حوالے کرتے جائیں گے تو نتائج ہرگز حوصلہ افزاء اور اچھے نہیں ہوں گے، اور یہ وہ وقت ہوگا جب سوچنے اور پچھتانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
کوشش کیجیے کہ بچوں کو پیار سے سمجھائیں، اُن کو بتائیں کہ اُن کے لیے کیا ٹھیک اور کیا غلط ہے۔ جب آپ اپنے بچوں کو ساری باتیں سمجھائیں گے تو یقیناً وہ بھی بات کو سمجھیں گے۔ مقررہ عمر سے پہلے سائکل دے کر اُن کا شوق پورا کرنے میں ہرج نہیں لیکن نوعمری میں موٹرسائیکل جیسا شیطانی چرخہ معصوم بچوں کے ہاتھوں میں تھما کر اپنے اور اُن کے لئے براہِ مہربانی خطرہ مت مول لیں۔