گوادر(نیوز ڈیسک ) گوادرپی سی ہوٹل حملے میں ملوث کیے جانے کی کوشش پر اصل حمل کاشانی کا ٹویٹر پیغام سامنے آ گیا۔ حمل کاشانی نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ’ پچھلے 2 دنوں سے سوشل میڈیا میں ایک پوسٹ وائرل کی جارہی ہے کہ میں گوادر حملہ آور ہوں اور مجھے حمل مری سے منسوب کرکے میرے خلاف ایک منظم طریقے سے مہم چلاء جارہی ہے میں اس پوسٹ کے توسط سے یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ مجھے ان حملہ آوروں سے منسوب نہ کیا جائے‘۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نیوز نے ایک ٹویٹ شئیر کی ہے جس میں اصل حمل کاشانی نے کہا ہے کہ ان کے خلاف منظم طریقے سے سازش کی جارہی ہے۔ بی بی سی نیوز کے مطابق بلوچستان سے تعلق رکھنے والے حمل کاشانی کو ان کے یونیورسٹی کے دوست نے ان کی تصویر سوشل میڈیاپر شئیر ہونے کے بارے میں بتایا اور مختلف اکاوٴنٹس کے لنک بھی بھیجے۔جس کے بعد حمّل نے ان لنکس کو کھول کر دیکھا تو ان کے مطابق وہ دنگ رہ گئے۔انہوں نے کہا کہ تصویر دیکھا کر انہیں دھچکا لگا کیونکہ ان کی تصویر کو گوادر کے پی سی ہوٹل پر حملہ کرنے والے شخص سے منسوب کر کے کہا جا رہا تھا کہ حملہ انہوں نے کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر حمل کاشانی کی تصویر شئیر کرکے نیچے لکھا گیا تھا کہ گوادر پرل کانٹینینٹل ہوٹل میں مارا جانے والا حملہ
آورحمل فاتح بلوچ جس کے لاپتہ ہونے کا تماشہ کیا گیا تھا وہ دہشت گرد تھا۔ حمل کاشانی نے بتایا ہے کہ یہ تصویر حملے کے3 دن بعد بھی کئی سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شئیر کی جارہی ہے جس کی وجہ سے ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو گیاہے۔ تصویر میں موجود حمل کاشانی کا تعلق بلوچستان کے ضلع پنچگور سے ہے اور انہوں نے اسلام آباد کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے 2015 میں بین الاقوامی سیاسیات میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ اس شعبے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے حمل اکثر اخبارات کے لیے کالم نگار کے طور پر کالم بھی لکھتے رہے ہیں۔ان کی ایک اخبار میں شائع ہونے والے ایک کالم پر لگی تصویر کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر موجود کچھ اکاوٴنٹس نے حملہ آور حمل فاتح بلوچ سے منسوب کیا گیا اور اسے وائرل بھی کر دیا گیا۔حمل کے مطابق پہلے انہوں نے سوچا کہ وہ کچھ نہ کہیں کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ ان کے گھر والے پریشان ہوجائیں گے۔ لیکن پھر بہت سے دوستوں کے پیغامات آنے کے بعد انہوں نے سوچا کہ وہ اس بات کو واضح کر دیں کہ جس شخص کو ان سے منسوب کیا جارہا ہے وہ کوئی اور ہے۔ حمل نے 15 مئی کو اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا ہے کہ پچھلے کئی دنوں سے ان کی تصویر کو ایک منظم طریقے سے وائرل کیا جا رہا ہے اورانہوں نے مزید کہا ہے کہ وہ اس پوسٹ کے توسط سے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ انہیں ان حملے آوروں سے منسوب نہ کیا جائے۔