تحریر : روہیل اکبر
ہمارے ملک کے اداروں کی ناکامی کا بڑا سبب یہ ہے کہ جب ایک قابل اور محنتی شخص کام کرنا چاہتا ہے تو اسے مواقع فراہم نہیں کیے جاتے اور جب عمر کے آخری حصے میں انسان کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے تب اسے ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبا دیا جاتا ہے اسی لیے آج ہمارے تمام قومی اداروں کابرا حال ہو چکا ہے انصاف ملنا تو دور کی بات ہے کہیں سے انصاف کا نام و نشان ملنا بھی دشورا ہوچکا ہے ملکی معاملات کو چلانے کے لیے ایک حکومت تشکیل دی جاتی ہے جو بظاہر تو عوام کے ووٹوں سے معرض وجود میں آتی ہے مگر جیسے ہی الیکشن کا عمل ختم ہوتا ہے تو پھر ہر طرف سے دھاندلی اور چور بازاری کا شور شروع ہوجاتا ہے کل کے ہارنے والے جیتنے والوں کے خلاف عدالتوں میں حصول انصاف کے لیے چلے جاتے ہیں مگر بات جوں کی توں ہی رہتی ہے اور پھر نئے الیکشن کا وقت آپہنچتا ہے جو بھی اقتدار میں آتا ہے وہ عوامی مسائل اور ملک کے حالات سے بے خبر ہو کر صرف اپنے چاہنے والوں کو نوازنے اور اپنے حالات سے ہی باخبر رہتا ہے
پیپلز پارٹی کا دور تھاتو تب ہر طرف لوٹ مار کا سما ں تھا پاکستان ریلوے ،پاکستان اسٹیل ،پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن جیسے بڑے بڑے اداروں کی تباہی کے ساتھ ہر قومی ادارے کو برباد کردیاگیامسلم لیگ ن نے دو بار حکومت کرنے کے بعد تیسری باربھی ملکی معیشت کا پہیہ الٹا گھما دیا وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف اپنے بڑے بھائی جناب آصف علی زرداری کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہی کی پالیسیوں کو آگے بڑھا رہے ہیں فرق صرف اتنا سا ہے کہ چہرے تبدیل ہوئے ہیں باقی سب کچھ ویسے ہی چل رہا ہے عمران خان خیبر پختون خواں میں دودھ کی نہریں نکالنے چلے تھے مگر ابھی تک دہشت گردی پر کنٹرول نہیں پایاجا سکا
دونوں ایک دوسرے کا مورد الزام ٹہرا کر عوام سے کنی کترا رہے ہیں ابھی ورلڈ کپ شروع ہوا ہے تو پاکستان کرکٹ بورڈ کی سربراہی میں ہمارے کھلاڑیوں نے جو کارنامے سرانجام دیے ہے وہ بھی ہمارے لیے شرمندگی کا باعث بنے ہوئے ہیں معین خان جوئے کے اڈے پر جانے کے بعداب اپنے کیے کی قوم سے معافی مانگتا پھر رہا ہے جبکہ دوسرے کھلاڑیوں کے بھی جواریوں سے رابطوں کا انکشاف ہورہا ہے ہم یہ مانتے ہیں کہ نواب محمد سرور خان آف بھوپال کے گھر 29مارچ1934کو پیدا ہونے والے انکے اکلوتے صاحبزادے نوبزادہ شہریار محمد خان بہت ایماندار ،سلجھے ہوئے اور وضح دار ہیں مگر اب وہ عمر کے جس حصے میں ہیں انہیں کرکٹ بورڈ کی سربراہی سے معذرت کرلینی چاہیے
کیونکہ زندگی کو جس شاندار انداز میں انہوں نے انجوائے کیا ہے وہ بہت کم لوگوں کے حصہ میں آتی ہے مگر اب عمر کے آخری حصہ میں آکرٹیم پر جوئے کے الزام لگ رہے ہوں تو انکا دفاع کرتے ہوئے اچھا نہیں لگتا کہ سابق سفیر اور چیئرمین امور خارجہ جواریوں کو ٹیم سے نکالنے کی بجائے انکا بڑے موثر انداز میں حمایتی بن رہا ہوکیا یہ عمر کا تقاضا ہے یا پھر کوئی اور وجوہات بن چکی ہیں جبکہ حکومت بھی کرکٹ بورڈ کے معاملات سے بے بس اور لاپراہ نظر آرہی ہے اس کی وجہ شائد وہی ہو جو یار لوگ بتا رہے ہیں کہ جو احسانات جناب نجم سیٹھی صاحب نے کیے تھے انہیں اتارا جارہا ہے اسی لیے حکومت کرکٹ بورڈ کے معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہی ورنہ پاکستان میں کسی قسم کے ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے ایک سے بڑھ کر کھلاڑی دستیاب ہیں
اس ادارے کے انتظامی امور کو چلانے کے لیے تجربہ کار اور سلجھے ہوئے افراد کی کمی نہیں ہے اگر تو حکومت چاہتی ہے کہ پیپلز پارٹی دور میں برباد ہونے والے ریلوے کی طرح کرکٹ بورڈ کو تباہی سے بچالیا جائے تو پھر یہاں پر بھی کسی سعد رفیق جیسے فرد کو تعینات کردیا جائے ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ماضی میں کون کتنا بڑا چور یا ڈاکو رہا ہے کس نے کتنا مال لوٹا اگر این آر او کی بدولت کوئی وزیر اعظم بن سکتا ہے تو کوئی گورنر تعینات ہوسکتا ہے
پھر کرکٹ بورڈ کی ذمہ داریاں بھی کسی ایسے فرد کو دے دینی چاہیے جو جواریوں کے داؤ پیچ سے لیکر کرکٹ کی پیچ اور کھلاڑیوں کی نفسیات تک کو بھی سمجھتا ہو ورنہ ہماری باقی تمام کھیلوں کے ساتھ ساتھ کرکٹ بھی ڈوب جائیگی جس طرح اس وقت ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے ،کراچی خون میں ڈوبا ہوا ہے ،عوام پریشانی میں ڈوبے ہوئے ،افسران کمیشن اور حکمران مفاہمت کی سیاست میں ڈوبے ہوئے۔
تحریر : روہیل اکبر
03004821200