پیپلز پارٹی کے وضعدار رہنما قمر زماں کائرہ صاحب کو سخت آزمائش آ گئی۔ ان کا نوعمر بچہ اسامہ اپنے دوست حمزہ بٹ کے ساتھ کار کے حادثے میں جاں بحق ہوگیا۔
ایسے صدموں پر والدین کی کیا حالت ہوتی ہے۔ اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ صدمہ تو عمر بھر ساتھ رہے گا ۔اِلایہ کہ اللہ تعالیٰ سہارا بن جائیں۔ حادثے میں موت ایک قسم کی شہادت ہوتی ہے۔ مرحوم بچوں کو یہ اجر انشاء اللہ ملے گا اور اس غم کا اجر والدین کو بھی۔ دل دہل جاتا ہے جب اخبار میں ایسے حادثے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ خدا کی پناہ کچھ عرصے سے حادثاتی اموات بھی بڑھ گئی ہیںاور قتل کی لرزہ خیز وارداتیں بھی۔ ہر روز ہی بچوں کے اغوا اور قتل کے واقعات بھی روزبروز بڑھتے جاتے ہیں اور ریاست کا کہیں وجود ہے بھی یا نہیں‘ کچھ پتہ نہیں چلتا۔ ایک نئی بات یہ ہوئی کہ ایک جماعت کے سوشل میڈیا ورکرز نے اس خبر پر علانیہ خوشی کا اظہار کیا کہ ایک نے تو یہ بھی لکھا کہ کوئی مجھے برا کہے یا اچھا۔ مجھے تو اس حادثاتی موت پر خوشی ہے۔ کسی بھی ملک کی تاریخ میں اس سے پہلے اس طرح کا کلچر موجود نہیں تھا۔ ان لوگوں نے کلثوم نواز کی علالت کے زمانے میں سوشل میڈیا پر دو قسم کی مہم چلائی۔ ایک یہ کہ وہ ہرگز بیمار نہیں۔ سب ڈرامہ ہے۔ دوسری یہ کہ بہت اچھا ہو گا اگر یہ مر جائے۔
وزیراعظم لاہور تشریف لائے اور پنجاب کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی۔خیال تھا کہ وہ عوام کے لئے آسان قسطوں پر قرضہ سکیم کا اعلان کریں گے تاکہ وہ لیموں خرید سکیں لیکن انہوں نے وزراء سے کارکردگی کی رپورٹ طلب کی۔ کارکردگی اچھی نہیں تھی چنانچہ وزیر اعظم نے تنبیہ کی کہ وہ کارکردگی بہتر بنائیں اور شریف خاندان کی کرپشن کے بارے میں زیادہ سے زیادہ بیانات دیں۔ یہ خبر ایک دو اخبارات میں شائع ہوئی۔ وزیر اعظم کا شکوہ درست ہے۔ اس وقت بزدار صاحب ان کے ایک دو وزیروں اور ارکان اسمبلی کے سوا کوئی بھی شریفوں کی کرپشن کے قصے بیان نہیں کر رہا۔ پنجاب کابینہ سے وفاقی کابینہ کی کارکردگی بہرحال بہتر ہے۔ فواد چودھری‘ مراد سعید‘ واڈوا‘شیخ رشید سمیت چھ سات وزراء شریفوں کی کرپشن کے قصے دہرنے کی قومی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں لیکن مجموعی طور پر وفاقی کابینہ کی کارکردگی بھی کوئی مثالی نہیں۔ پچاس ارکان ہیں شریفوں کی کرپشن کا ذکر کرنے والے محض چھ سات؟ کارکردگی کا یہی ایک ہی تو شعبہ ہے۔ ایسا رمضان پہلی بار آیاہے کہ یوٹیلیٹی سٹورز کے شیلف خالی ہیں۔ وفاقی حکومت نے کئی ارب روپے کا رمضان پیکیج جاری کیا تھا اور کئی ارب کہاں گئے؟ اسی کھچڑی میں یاروں کا پیٹ جیسے اندر انڈیلتے تھکتا ہے نہ بھرتا ہے۔ ایک اشتہار پنجاب حکومت کا بھی آتا ہے‘ اربوں روپے کا رمضان بازار پیکیج‘ صورتحال یہاں بھی وہی ہے اور یہاں کے اربوں کا قصہ بھی وہی ہیں۔ وہی کھچڑی ‘سچ ہے‘ ایماندار اور حلال کرپشن سے زیادہ برکت کسی اور شے میں ہو ہی نہیں سکتی۔ بلوچستان کی حالیہ تاریخ میں پہلی بار کوئٹہ اور گردو نواح کے شہروں میں مکمل شٹر ڈائون دیکھا گیا۔ شٹر ڈائون حکومت کی اقتصادی مار دھاڑ‘ معاشی غدر اور مہنگائی کے خلاف کیا گیا۔ اپوزیشن لیڈروں نے کہا جام کمال کی حکومت میں صوبے میں اقتصادی ترقی کا پہیہ جام ہے۔ اپوزیشن رعایت کرگئی۔
صوبے میں جب سے جام آئے ہیں‘ امن و امان کا پہیہ بھی جام ہے۔ جام بھی کپتان کی طرح خوش خوراک ہیں۔ بلوچ احباب فون پر ان کی خوش خوراکی و خوش خوری کے قصے مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں۔ صوبہ جام ہے تو کیا ہوا جام کا کام تو چھلکے جا رہا ہے ناں‘ بے چارہ ایک کونے میں بیٹھ کر دہی سے روٹی کھا رہا ہے۔ اعتراض کاہے کو کریں۔ باقی ملک کیا کم جام ہے؟ وفاق میں بھی تو مہا جام بیٹھے ہیں۔ خبر ہے شیخ رشید کے وزارت ریلوے سنبھالنے کے بعد سے ریلوے کا خسارہ ریکارڈ آگے نکل گیا ہے اور مبلغ 29 ارب سے بڑھ گیا ہے۔ شیخ صاحب کو جب وزارت ملی تھی تو اس کالم میں اظہار مسرت کیا گیا تھا اور توقع ظاہر کی گئی تھی کہ ریلوے کے محکمہ کو کیفر کردار تک پہنچانے کے جس مشن کو وہ مشرف دور میں عمل نہیں کرسکے تھے انشاء اللہ اس دور میں پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیں گے۔ شیخ صاحب اسی طرح ہمت سے لگے رہیے اس ناہنجار پٹڑی اور پہیے سے نجات کی ساری امیدیں اب آپ ہی سے ہیں۔ وزیر خارجہ کبھی کبھار خارجہ امور پر بھی لب کشائی کیا کرتے ہیں۔ اس ہفتے بھی کی۔ فرمایا ‘ ڈالر امریکہ چین کشمکش کی وجہ سے مہنگا ہو رہا ہے۔ لگتا ہے یہ کشمکش صرف پاکستان ہی کے لئے کی گئی۔ اس لئے کہ اور تو کہیں بھی ڈالر مہنگا نہیں ہو رہا۔ سناہے کہ یہ ’’کشمکش‘‘ جون تک مزید رنگ لائے گی۔ ڈالر کو 170 تک لے جانے کا طے کر لیا ہے(کشمکش نے)!