لاہور انسان خطاء کا پُتلا ہے اور اشر فا لمخلوقات بھی ہے۔ کبھی کبھی ناجانے یا لاپرواہی سے غلطی کر دیتا ہے پھر اس کا نتیجہ تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ان دنوں ایسے ہی ایک معاملے میں دو بٹ دو چار ہیں ۔عارف بٹ اور کالم نویس توفیق بٹ، توفیق بٹ کی جانب سے لکھا گیا کالم (بنارسی ٹھگ) نے کویت میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کو دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا عام طور پر یہ سمجا اور جانا جاتا ہے کہاگر کسی ایک انسان میں اچھائیاں زیادہ (نیک عمل)ہوں اور برائیوں میں کم دلچسپی رکھتا ہو تو اس کو اچھا اور نیک سیرت انسان سمجا جاتا ہے اور اس کے برعکس اگر برائیوں میں اضافہ ہوجاے تو ایسے شخص کو لوگ قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔
توفیق بٹ کے کالم نے کویت میں پاکستانیوں میں ایک ہلچل مچادی۔ عارف بٹ کے دوستوں اور چاہنے والوںکو اس تحریر کی وجہ سے بہت دکھ ہوا اورپھر اس کی پُرزور مزمت کی۔ جوکہ ان کا حق بھی تھا۔کیونکہ عارف بٹ فلاحی کاموں میں صفِ اول میں ہوتے ہیں۔کویت میں اکثریت سے یہ رائے پائی جاتی ہے کہ عارف بٹ محب الوطن درد دل رکھنے والے مخلص انسان ہیں ۔کمزور پریشان لوگوں کی مدد کرتے ہیں ،بغیر کسی کے جانے کہ وہ فرد کس قوم اور کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔بلا امتیاز ان کی مدد کے لیے پیش پیش ہوتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ کویت میں ایک معتبر وملن سار انسان کے حوالے سے ان کاذکر ہوتا ہے۔
اسی طرح اس عظیم کمیونٹی میں ایسے افراد کی کافی مقدار موجود ہے جن کا کہنا ہے کہ نامور آتھوپیڈک سرجن پروفیسر عامر عزیز کے سپائن سینٹر کے لیے جو ایمبولینس دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔اس کو پورا کرنا چاہیے تھا ،اگر ایمولینس کی قیمت کی وجہ سبب تھی جو کہ ایک عام ایمولینس سے بہت زیادہ ہے جس کی وجہ ایمولینس کا ایک خاص قسم کا ہونا ہے،اس پر بحث ہوئی جس کے نتیجہ میں جو عام اتفاق پایا گیا کہ ڈاکٹر عامر عزیز کو دس پندرہ لاکھ رروپے ادا کر دیے جائیں تاکہ وہ جو ایمولینس خریدیں اس میں یہ رقم شامل کرلی جاے۔اب سوال یہ ہے کہ حالات کیسے بھی رہے ہوں اب تین بر س کا عرصہ گزرچکا اس معاملے کا حل کیوں نہیں ہوا؟
میریاذاتی مشورہ یہ ہے عارف بٹ حقیقت میں ایک سچے اورسُچے انسان ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ اپنی کمیو نٹی کے علاوہ یہاں پر موجود دوسرے ممالک کی کمیونٹی میںایک خاص مقام رکھتے ہیں،ان کو چاہیے کہ اس کا حل محبت کے ساتھ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نکالیں جو وہ سمجتے ہیں کہ ایمولینس کے لیے اپنا حصہ ضرور ڈالیں اور رقم ادا کردیں اس کا اجر اللہ سبھان تعالٰی دے سکتا ہے کیونکہ وہ ہی بہتر جاننے والا ہے۔موجودہ موضوع جو آج کل ہر جگہ زیر بحث ہے اختتام پزیر ہوجاے گا۔ میرے مطابق توفیق بٹ ایک کالم نویس ہے
جسے محسوس کرتا ہے وہی لکھتا ہے یا جواسکو بتایا جاتا ہے یا جو شواہد ملتے ہیں اس پر ان کی بنیاد ہوتی ہے ۔ اس پوچیدہ معاملے میں انہوں نے تھوڑی جلدی کی ہے حقیقت کو جاننے کے لیے مزید معلومات درکار تھیں جو معلومات توفیق بٹ کے پاس تھیں وہ یہ کالم (بناری ٹھگ) لکھنے میں ناکافی تھیں اگر وہ تھوڑی سی اور تحقیق کر لیتے تو ان کا اعنوان شاید کچھ اور ہوتا ،زندہ دلانے لاہور کی طرح کویت میں موجود پاکستانی بھی اپنے مہمانوں سے محبت کرتے ہیں
مہمان نواز ہیں جن میں عارف بٹ،میاں محمد ارشد،حافظ شبیر کے علاوہ اب عرفان ناگرہ بھی اس پہلی لائین میں شامل ہے۔ان سب کا ماننا ہے کے پاکستان سے تشریف لائے ہوے مہمان انتہائی عزیز ہوتے ہیں اس لیے ان پر ہمیشہ محبتیں ہی نچھاور کرتے ہیں اور محبت کے بدلے محبت ہی چاہتے ہیں ۔۔۔۔
تحریر : ایچ ایم مہر لاہور