دنیا میں مفادات کا سکہ چلتا ہے۔ اس میدان میں ہم بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ جس کام میں فائدے کی بجائے خسارہ نظر آئے، ہم لوگ وہ کام بالکل نہیں کرتے، جیسے بابا عبیر ابو زری کہا کرتے تھے ’’پُلس نوں آکھاں رشوت خور تے فیدا کی؟‘‘ اس کی بجائے ہم تعمیری اور مفاداتی کاموں پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں، جیسے علم کی بجائے ڈگریاں، ایجادات کی بجائے نقل اور کام کی بجائے آرام وغیرہ وغیرہ ۔ استادوں نے فرمایا ہے:
وہ دن بھر کچھ نہیں کرتے ، میں آرام کرتا ہوں
وہ اپنا کام کرتے ہیں ، میں اپنا کام کرتا ہوں
اس پالیسی کے پیچھے یہ حقیقت کار فرما ہے کہ کم سے کم ذہنی اور جسمانی توانائی خرچ کر کے زیادہ سے زیادہ مفاد حاصل کیا جائے ۔ ہمارے ہاں رائج مفاد کی چیدہ چیدہ اقسام ذیل ہیں ۔
قومی مفاد: یہ سب سے مشہور اور کثیر الجہات مفاد ہے ، جو ہماری خاندانی قوم یعنی مغل، راجپوت ، اعوان، آرائیں وغیرہ یا ایک جدید یعنی نو دولتی قوم کا ہو سکتا ہے ۔ بحیثیت پاکستانی بھی ہم خود کو ایک قوم کہلانے پر مصر ہیں ۔ اس قوم کے مفادات بھی ہیں ۔ اسی طرح پوری امت مسلمہ بھی ایک قوم ہے ، جس کا ہمارے نزدیک مفاد ایک ہے ۔ قومی مفاد کی یہ تمام اقسام ہمیں عزیز ہیں۔ خاندانی قوم کا وقار ہم نمودونمائش کے ذریعے بلند کرتے ہیں اور شادی بیاہ وغیر ہ کے مواقع پر فائرنگ، آتش بازی ، بلند میوزک اور سڑکیں بلاک کرنے جیسے ہتھکنڈوں سے دوسروں کو ہراساں اور پریشان کر کے اپنے قومی مفاد کا تحفظ کرتے ہیں۔
دنیا جانتی ہے کہ بحیثیت پاکستانی قوم ہم اپنے مفادات کے سلسلے میں بہت حساس واقع ہوئے ہیں اور ان کا تحفظ کرنا خوب جانتے ہیں ۔ ہم ان مفادات پر ہر گز کوئی سودے بازی نہیں کرتے ، البتہ اگر کوئی مناسب بولی لگا دے تو پھر مجبوری آڑے آ سکتی ہے اور ہم کوئی بھی کڑوی گولی کھا لیتے ہیں ، چاہے وہ ہمارے گلے کی ہڈی ہی کیوں نہ بن جائے ۔ ہم اپنے قومی مفاد کی خاطر دہشت گرد تک پال لیتے ہیں، اپنے شہری دوسرے ملکوں کو بیچ دیتے ہیں اور ان کے مجرم رہا کر کے راتوں رات ان کے حوالے بھی کر دیتے ہیں۔ تاہم ہم اپنے نان اسٹیٹ ایکٹرز کے خلاف ایسی کوئی کارروائی نہیں کرتے ، جس سے قومی مفاد کو زک پہنچتی ہو ۔ اس سلسلے میں ہم اپنی سفارتی تنہائی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے ۔کہا جاتا ہے کہ دشمن ہمارے اندر چھپا بیٹھا ہے اور ہم قومی مفاد کی خاطر اسے بیرونی ایجنسیوں میں تلاش کر رہے ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ ہم ایک مفاداتی قو م ہیں جو اپنے مفاد کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہے ۔
تیسرے یعنی امت مسلمہ کے قومی مفاد پر بھی ہم دل و جان سے فدا ہیں ۔ مسلم دنیا چاہے ہمیں بھکاری اور مساکین کہے مگر ہم اپنے تئیں اس کے عظیم رہنما کے عہدہ جلیلہ سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ( چاہے گھر میں آٹا نہ ہو ) اس قوم کے مفاد کو ہم نے یوں سینگوںپر اٹھا رکھا ہے ، جیسے ایک بیل نے زمین کو ۔ دنیا کے کسی کونے میں بھی اگر مسلمانوں کے ساتھ کوئی زیادتی ہو تو ہم اپنی سڑکیں بلاک کر کے اپنے قومی مفاد کا تحفظ کرتے ہیں ۔
ملکی مفاد: یہ مفاد بھی ہمیں بہت مرغوب ہے ۔ مزدور سے لے کر ٹھیکیدار تک ، کلرک سے لے کر اعلیٰ افسر تک ، چھوٹے تاجر سے لے کر فیکٹری مالک تک اور کونسلر سے لے کر وزیراعظم تک ،اگر کوئی کسی چیز پر ذرا سی بھی آنچ نہیں آنے دیتا تو وہ ملکی مفاد ہے ۔ دنیا جو مرضی سمجھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری کام چوری ، گھپلے ، رشوت، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی ، جعلسازی ،خوردبرد، ٹیکس چوری ، منی لانڈرنگ ، آف شور کمپنیاں ، غیر ملکی اکائونٹس، کمیشن اور کک بیکس جیسے عوامل کے پیچھے ملکی مفاد کا جذبہ ہی کارفرما ہوتا ہے ۔ چونکہ ہمیں احساس ہے کہ ہمارا ملک غریب ہے ، لہذا ہم بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ امیر ہو جائیں ، چاہے یتیم کا مال ہی کیوں نہ ہڑپ کرنا پڑے ۔ حکمت یہ ہے کہ جب ہم امیر ہونگے تو ملک خود بخود امیر ہو جائے گا۔ چونکہ ہم ہر دفعہ لمبا ہاتھ مارتے ہیں لہذا یار لوگ اس مفاد کو وسیع تر ملکی مفاد بھی کہتے ہیں ۔
ذاتی مفاد: یہ مفاد حاصل کرنے کا ہمارے ہاں کوئی رواج نہیں، سو کاغذات کا پیٹ بھرنے کے لئے ہم اسے ملکی مفاد لکھ دیتے ہیں کہ ویسے بھی یہ دونوں مفاد الگ الگ تو ہیں نہیں۔ تاہم اگر کہیں ہمارا تھوڑا بہت ذاتی مفاد ہو بھی تو ہم اس کی خاطر ملکی مفاد کو ہر گز دائو پر نہیں لگاتے۔
اسٹرٹیجک مفاد: ہمارا یہ مفاد دنیا بھر میں ہر جگہ پھنسا ہوا ہے ۔ افغانستان کی جنگ ہو، شام ، عراق، ایران یا عرب ریاستوں کی ۔ بحرین کے شر پسندوں کو کچلنا ہو یا فلسطینیوں کو ۔ روس کی جاسوسی کے لئے کسی کوہمارا کوئی اڈہ درکار ہو یا کسی کو ہماری فوج یا جہادی فورس کی ضرورت پڑے ، ہمارا اسٹرٹیجک مفاد فوراً حرکت میں آ جاتا ہے اور ہمارا فن حرب اور عسکری تدبیریں اپنا لوہا منوانے لگتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ جنگوں کے وسیع تجربے نے ہماری ان صلاحیتیوں کو خوب جلا بخشی ہے۔ ہمارے کچھ محبت وطن عناصر کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ دنیا کو کب کا بتا چکے ہوتے کہ ہم نے ایٹم بم شو کیس میںسجانے کے لئے نہیں بنایا۔ ہمارے وزیراعظم کہتے ہیں کہ ہم ستر سال سے امریکہ کے اسٹرٹیجک پارٹنر ہیں اور اب نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ بھی مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ بلا شبہ دونوں ملکوں کے اسٹرٹیجک مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی طرف سے ہر نازک موقع پر ہمیں دھوکہ دے کر اکیلا چھوڑنے کے باوجود اس اسٹرٹیجک پارٹنر شپ میں کبھی کوئی دراڑ نہیں آئی۔
خیراتی مفاد:یہ اندرون ملک ہمارے بھکاریوں کی فوج کا مفاد ہے ، جس کے حصول کے لئے وہ کوئی سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ہم لوگ ہمہ وقت ان کے نرغے میںہیں جو اپنے اس مفاد کے حصول کے لئے ہمارے گھروں کے دروازے اور گاڑیوں کے شیشے کھٹکھٹانے ، کپڑے خراب کرنے ، شور مچانے ،حتیٰ کہ ہر وہ حربہ آزمانے پر کمر بستہ ہیں جس سے زِ چ ہوکر ہم انہیں خیرات دے کر جان چھڑاتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر ہمارا کچھ ایسا ہی مفاد آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک ،امریکہ اور امداد دینے والے دیگر ممالک سے وابستہ ہیں اور ہم اپنے اس مفاد کی خاطر ان سے پیوستہ ہیں ۔ ہم اپنے اس مفاد کے ساتھ بہت مخلص ہیں اور اللہ کے کرم سے اس پر کبھی آنچ نہیں آنے دیتے ( مفادات کی باقی اقسام مستقبل قریب میں عرض کی جائیں گی )