تحریر: طارق حسین بٹ
بڑی مشہور کہاوت ہے کہ پاکستان میں اقتدار کا حتمی فیصلہ تین اے (اللہ،امریکہ۔آرمی ) کرتے ہیں۔پناما لیکس کے نتیجے میں کیا ہونے والا ہے ابھی تک پردہِ اخفا میں ہے۔امریکہ کے اس خطے سے اپنے مفادات وابستہ ہیں اور وہ انہی مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنا لائحہ عمل مرتب کریگا۔امریکہ کو معاشی راہداری پر سخت تحفظات ہیں اور وہ اس راہداری کو اپنی چودھراھٹ کیلئے سنگین خطرہ تصور کرتا ہے۔بھارت کے ساتھ مل کر اس نے چین کے خلاف اتحاد بنایا ہوا ہے جس کا واحدمقصد چین کو الجھائے رکھنا ہے۔پاکستانی معاملات میں بھارتی مداخلت کے پیچھے بھی امریکی اشیر واد ہے۔امریکہ اس بات کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے کہ جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطی سے اس کی بالا دستی ختم ہو جائے۔امریکہ کو جب بھی اپنے مفادات کو ضرب لگنے کا امکان ہو تا ہے وہ پورے خطے میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔افغانستان، عراق، لیبیا، شام، یمن اور سوڈان اس کی واضح مثالیں ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکہ اس وقت دنیا کی سپر پاور ہے لیکن چین اس کے قدموں سے بالادستی کا کارپٹ چھین رہا ہے۔معاشی راہداری کا منصوبہ چین کی سب سے مضبوط کوشش ہے۔اس منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے ضروری ہے کہ اس خطے میں انتشار کی کیفیت پیدا کر دی جائے تاکہ یہ منصوبہ ناکامی سے دوچار ہو جائے۔
پاکستان میں جب بھی امریکی مفادات کو زک پہنچنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں امریکہ فوجی حکومت کے قیام کی کوششیں شروع کر دیتا ہے۔پہلے جمہوریت کاواویلا کرتا ہے اور پھر فوجی حکومتوں کی پیٹھ ٹھونکتا ہے کیونکہ اس کے مفادات فوجی حکومتوں کے ذریعے آسانی سے پروان چڑھتے ہیں۔جنرل ایوب خان،جنرل یحی خان،جنرل ضیاالحق،جنرل پرویز مشرف امریکی اشیرواد سے ہی مارشل لاء لگانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ساری دنیا کو علم ہے کہ ولفقار علی بھٹو سے امریکہ ناراض تھات اور انھیں عبرت کا نشان بنانے کا اعلان کر چکا تھا لہذا پہلے ذولفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کو منظم کیا گیا اور پھر فوج کو ان کا تختہ الٹنے کا گرین سگنل دیا۔اس زمانے میں امریکہ اس طرح کی سپر پاور نہیں تھا جیسے اب ہے۔
اب تو وہ کھلی غنڈہ گردی پر اترا ہوا ہے کیونکہ جو اس کے سامنے سرِ تسلیم خم نہیں کرتا اس کے خلاف ائیر فورس کواستعمال کر کے اس کا قلع قمع کر دیتا ہے۔بات صرف فوجی حکومتوں کی نہیں ہے بلکہ سول حکومتیں بھی امریکی مفادت کو پیشِ نظر رکھنے کا یقین دلا تی ہیں تو انھیں اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھایا جاتا ہے۔پی پی پی اپنے جلسوں میں مریکہ مردہ باد کے نعرے لگایا کرتی تھی لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو نے امریکہ مردہ باد کے نعرے ممنوع قرار دے دئے تھے کیونکہ امریکی ناراضگی اقتدار سے محرومی کا سبب بن سکتی تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اقتدار کا راستہ واشنگٹن سے ہو کر جاتا ہے لہذا واشنگٹن کی ناراضگی کوئی بھی مول نہیں لیتا۔جنرل پرویز مشرف اور پی پی پی کے درمیان این آرو بھی امریکی ضمانتوں کے ساتھ عمل پذیر ہوا تھا۔
این آر او نہ ہوتا تو پھر پی پی پی اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے سے محروم رہتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کی ساری تاریخ بے وفائیوں سے بھری پڑی ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکہ کسی کو اپنے ساتھ بے وفائی نہیں کرنے دیتا اور پھر اسے جس پر شک ہو جائے کہ یہ اس کے ساتھ ڈبل کراس کر رہا ہے تو پھر اسے گاہے بگاہے موت کی وادی میں بھی پہنچا دیا جاتا ہے۔جنرل پرویز مشرف پر بھی یہ الزام تھا کہ وہ بیک وقت طالبان اور امریکہ کے ساتھ کھیل کھیل رہا تھا۔ایک طرف وہ طالبان کے خلاف تھا لیکن دوسری طرف انھیں ایسی معلومات بھی بہم پہنچا تاتھا جس سے امریکی فوج اور اس کے دستوں کو شدیدنقصان پہنچتا تھا۔ایسے کئی شواہد جنرل پرویز مشرف کو دکھائے گئے تھے جس میں وہ اس طرح کی ڈبل کراسنگ کا کھیل کھیل رہا تھا لہذا س کی رخصتی یقینی ہو گئی۔جنرل پرویز مشرف ہو، یا میاں محمد نواز شریف یا پی پی پی کی حکومت ہو امریکہ بہادر کی بالادستی کو تسلیم کئے بغیر چارہ کار نہیں ہے۔امریکہ کو آقا کا رول تسلیم کیا جاتا ہے تو پھر بات آگے بڑھتی ہے اور اس سے کسی کو بھی استثنی نہیں ہے ۔،۔
پاناما لیکس پر ابھی تک امریکہ کوئی واضح موقف نہیں اپنا رہا بلکہ وہ اسے متعلقہ حکومتوں پر چھوڑ رہا ہے۔ وہ وقت آنے پر اپنا فیصلہ صادر کریگا اور اس وقت پھر کسی کی جان بخشی نہیں ہو گی۔ جہاں تک پاکستان آرمی کا تعلق ہے تو یہ ملکی سالمیت کو پیشِ نظر رکھ کر اپنا موقف قائم کرتی ہے ۔سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت بھی اس کے فرائضِ منصبی میں شامل ہے۔لوگوں کا خیال ہے کہ اگر فوج پاکستان میں طاقت ور نہ ہوتی تو شائد کچھ ہوس پرست سیاست دان اس ملک کو بیچ کر کھا جاتے اور لوگ در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہوتے ۔دولت کی کشش نے کچھ سیاستد انوں کی ہوسِ زر کواتنا زیادہ لا محدود کر دیاہے کہ انھیں اس بات کا احساس تک نہیں رہا کہ وہ جس دولت کو لوٹنے کے جتن کر رہے ہیں یہ اسی عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھی ہوتی ہے جو اپنے قیمتی ووٹ سے انھیں اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھاتے ہیں۔پناما لیکس کی وجہ سے میا ں محمد نواز شریف دبائو میں ضرور ہیں لیکن حسن نواز اور حسین نوازکے ڈائرکٹ ملوث ہونے کی بناء پر ان کی طرف توپوں کا رخ قدرے کم ہے اور وہ اسی سہولت کے پیچھے پناہ لینا چاہتے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ انھیں اس بات سے کچھ ریلیف مل جائے کہ انھوں نے خود آف شور کمپنیاں نہیں بنائیں بلکہ ان کے بچوں نے آف شور کمپنیاں بنائی ہیں اور وہی کمیشن کو جواب دہ بھی ہیں۔ پی پی پی کی بے ضرر حکمتِ عملی کے نتیجے میں بھی میاں محمد نواز شریف کو کچھ سکون مل جانے کا امکان ہے کیونکہ پناما لیکس پر پی پی پی نے میاں نواز شریف کے استعفے سے خود کو علیحدہ کر لیا ہوا ہے۔ عدالتی کمیشن اور پھر اس کمیشن کی ہئیت پر بھی پی پی پی کسی سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کر رہی کیونکہ اسے اپنے ممبران کے ملوث ہونے کے بھی خدشات لاحق ہیں۔وزیرِ داخلہ چوہدری نثار خان نے اپنی تقریر میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو جس طرح آڑے ہا تھوں لیام ہے وہ بڑا عبرت ناک ہے کیونکہ اس سے ساری اشرافیہ ننگی ہو گئی ہے۔
خورشید شاہ کی فائلیں شائد پی پی پی کو زیرِ پا رکھنے کا کام کر رہی ہیں ہیں اور پی پی پی احتساب کے خوف سے حکومت کا ساتھ دینے میں ہی اپنی عافیت سمجھ رہی ہے۔قادر پٹیل اور عزیر بلوچ کے انٹرویوز اور سندھ حکومت کے سابق وزیرِ اطلاعات شرجیل میمن کی ملک بدری بھی ایک ایسی کہانی بیان کر رہی ہے جس کی وجہ سے پی پی پی پناما لیکس پر کھل کر کھیلنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔وہ پناما لیکس پر اسی طرح سے خوف کا شکار ہے جس طرح مسلم لیگ (ن) خوف کا شکار ہے۔دونوں جماعتیں ہر قسم کے احتساب سے جان چھڑانا چاہتی ہیں لیکن الجھی ہوئی دوڑ کا سرا ان کے ہاتھ نہیں لگ رہا۔قومی دولت کو بے دریغ لوٹنے والوں کا یہی انجام ہوا کرتا ہے۔پکڑے جانے کا خوف دل میں سما جائے تو سکون و چین غا رت ہو جاتا ہے اور یہاں تو اربوں روپوں کی کرپشن کی کہانیاں ہیں۔
لوگوں کیلئے اب کسی چیز میں دلچسپی نہیں ہے ،ان کی ایک ہی خواش ہے کہ کرپٹ حکمرانوں سے گلو خلاصی کی جائے۔جمہوریت میں انتخابات ہی حکومتیں بدلنے کا بہترین طریقہ ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں وہ تجربہ بھی ناکام ہو چکا ہے کیونکہ یہاں پر دھونس دھاندلی اور پیسے کا بے دریغ استعمال شفاف انتخابات کے انعقاد کو ممکن نہیں ہونے دیتا اور پھر برادری ازم اور ریاستی ذرائع کا بے تحاشہ استعمال بھی شفافیت کی عمل پیرائی میں رکاوٹ ہے۔سیانوں کا قول ہے کہ جب سارے آئینی راست بند ہو جاتے ہیں تو پھر قوم اس بند گلی میں چلی جاتی ہے جہاں پر آئین سے ماورا اقدام اٹھانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا۔کیا موجودہ حکومت اس بند گلی میں داخل ہوگئی ہے جہاں پر غیر آئینی اقدام ناگزیر ہو چکا ہے؟
تحریر: طارق حسین بٹ
چیرمین پیپلز ادبی فورم