اسلام آباد( اصغر علی مبارک) وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے چوہدری نثار کے دور میں فیصلے کہیں اور ہوتے ہوں گے۔ایگزٹ کنٹرول لسٹ کے معاملے پر سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار اور موجودہ وزیرداخلہ احسن اقبال میں ٹھن گئی ہے۔ہفتے کو ایک انٹرویو اور صحافیوں سے گفتگو میں وزیرداخلہ احسن اقبال نے کہا ہم نے ای سی ایل کی پالیسی کو اوپن کر دیا ہے تا کہ اس میں کسی قسم کے انتقام کی بو نہ آئے۔
انہوں نے کہا کہ وہ یہ بات نوید قمر کو بتانا چاہتے ہیں کہ اگر حکومت کی کسی قسم کی بدمزگی کی خواہش ہوتی تو ڈاکٹر عاصم کو باہر جانے کی اجازت نہ ملتی ہم اس سلسلے میں رکاوٹ پیدا کرسکتے تھے،راجہ پرویز اشرف کیلئے رکاوٹ پیدا کرسکتے تھے لیکن ہم نے اس کو شفاف انداز میں چلایا ہے۔وزیرداخلہ نے کہا کہ چوہدری نثار کے دور میں فیصلے کہیں اور سے آتے ہوں گے لیکن اب نہیں، اس حوالے سے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، اب وزارت داخلہ کے فیصلے آئین اور قانون کے مطابق ہوتے ہیں کہیں اور نہیں۔
احسن اقبال نے مزید کہا کہ چوہدری نثار شاید یہ بات بھول گئے ہیں کہ اگست 2016 میں سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ آیا تھا،جس میں کہا گیا تھا کہ جہاں پر وفاقی حکومت کے الفاظ درج ہیں اس سے مراد کابینہ ہے،ای سی ایل پر نام ڈالنا یا نکالنا وفاقی حکومت کا اختیار ہے۔ہم نے 600 سے زائد کیسوں کو کابینہ کی منظوری کیلئے بھیجا ہے، اس میں میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار کے کیس بھی شامل ہیں، یہ کیس گزشتہ روز بھیجے گئے ہیں، ہم نے اس بارے میں لا ڈویژن سے ایڈوائس لی ہے، اب کابینہ ہی اس بات کی مجاز ہے کہ کسی کا نام ای سی ایل میں ڈالے یا اس سے نکال دے۔
احسن اقبال نے کہاکہ پاکستان میں اب پاکستان میں جمہویت اور جمہوری عمل مضبوط ہوچکا ہے، پاکستان کے 20 کروڑ عوام جمہوریت کے مالک اور اس کے نگہبان ہیں۔وفاقی وزیر داخلہ نے کہاکہ کچھ عناصر کی جانب سے الیکشن اور جمہوریت کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے انتخابات سے پہلے جمہویت پر سوالات اٹھانے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔اس ملک میں کچھ ایسی ناکام قوتیں ہیں جنہیں جمہوریت اور الیکشن کے عمل سے خوف ہوتا ہے، اور وہ ہمیشہ یہ کوشش کرتی ہیں کہ جمہوریت کا راستہ روکا جائے۔
انہوں نے کہا کہ عوام اب بہت سمجھ دار ہیں، وہ چاہے کتنا ہی تعلیم سے دور کیوں نہ ہو لیکن اب سیاسی شعور رکھتے ہیں۔وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان میں ایک کسان بھی اب اتنا ہی سیاسی شعور ہے جتنا وکیلوں، صحافیوں اور دانشورں کو سیاسی شعور ہے۔انہوں نے کہا کہ اب ہمیں کسی کو بھی یہ موقع فراہم نہیں کرنا چاہیے کہ وہ ملک میں عدم استحکام اور بے یقینی کی صورتحال پیدا کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ اب پاکستان میں جمہویت اور جمہوری عمل مضبوط ہوچکا ہے، پاکستان کے 20 کروڑ عوام جمہوریت کے مالک اور اس کے نگہبان ہیں۔وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم پاکستان کو جمہوریت کی مدد سے ہی کامیاب ترین ملک بنائیں گے اور اپنے اہداف حاصل کریں گے جبکہ ملک کو 2025 تک پہلی 25 معیشتوں میں بھی شامل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف اب آرمی چیف نہیں ہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ اور پاکستان کے عام شہری ہیں، لہٰذا انہیں ایسی مراعات نہیں مانگنی چاہیے جو موجودہ آرمی چیف کو دی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ملک سے دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہے، پانچ سال قبل کراچی میں بھتے کی پرچیاں ملتی تھیں اور آج پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا فائنل میچ دیکھنے کے لیے لوگ ٹکٹیں خرید رہے ہیں۔احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان میں نمایاں تبدیلیاں ہو رہی ہیں، پانچ سال قبل کوئی پاکستان میں 10 ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن اب پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت چینی سرمایہ کاری ہمارے انفرا اسٹرکچر اور توانائی کے متعدد منصوبے بنارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملکی ترقی کے سفر کو جاری رکھنے کے لیے ملک میں امن و امان اور سیاسی استحکام کو یقینی بنانا ہے اور جس کے لیے امید ہے کہ اپوزیشن لیڈر ملک میں نگراں سیٹ اپ کے لیے حکومت سے اتفاق کریں گے-وفاقی وزیر نے کہا کہ 2018 عام انتخابات کا سال ہے، جمہوریت کی یہ کامیابی ہے کہ پہلے کہا جارہا تھا کہ سینیٹ انتخابات سے پہلے اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی لیکن سینیٹ انتخابات ہوئے، سینیٹ انتخابات میں جیتنے والے ہار گئے اور ہارنے والے جیت گئے۔
عوام ان معاملات کا جائزہ لے رہے ہیں یہ جمہوری عمل کا ارتقا ہے۔ یہ کہا جارہاہے کہ تیسری طاقت نگراں حکومت حکومت بنائے گی لیکن اپوزیشن جماعتوں کو دعوت دیتا ہوں کہ شفاف طریقے سے نگران سیٹ اپ پر اتفاق کرنا چاہئے۔ یقین ہے کہ سیاسی جماعتیں وفاق اور صوبوں میں غیر جانبدار سیٹ اپ پر اتفاق کریں گی اور انتخابات وقت پر ہوں گے۔احسن اقبال نے کہا کہ نوازشریف کے خلاف عدالتی ٹرائل پر لوگوں کے تحفظات ہیں، نوازشریف کے ساتھ جو عمل روارکھا گیا اس سے مقبولیت کم نہیں بلکہ اضافہ ہورہاہے۔ اگست 2016 میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ جہاں بھی حکومت پاکستان لکھا ہوگا وہاں کابینہ کو تصور کیا جائے گا، کسی بھی شخص کا نام ای سی ایل میں شامل کرنا یا نکالنا حکومت پاکستان کا کام ہے۔