جب کسی طرف سے انسانوں کی بھلائی کی کوئی بات نظر سے گزرتی ہے تو انسانوں کی بھلائی چاہنے والوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک خبر ہماری نظر سے گزری جس میں بتایا گیا ہے کہ بعض مذہبی اکابرین نے مطالبہ کیا ہے کہ بین المذاہب منافرت پیدا کرنے کو عالمی جرم قرار دیا جائے، ان مذہبی قائدین نے ایک انٹرنیشنل کونسل قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کونسل مذہب کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے والے عناصر سے لاتعلقی کا اعلان کرے گی۔
کونسل نے اس عزم کا اظہار بھی کیا ہے کہ دوسرے مذاہب کے احترام کو عالمی سطح پر نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ پرامن بقائے باہمی اور دوسرے مذاہب کے احترام کو عالمی سطح پر تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ ڈاکٹر تسلیمہ ایاز نے کانفرنس کی صدارت کی۔ چیئرمین مسلم کرسچن فیڈریشن قاضی عبدالقدیر خاموش نے کانفرنس کا اعلامیہ پیش کیا۔ اعلامیے کے مطابق اقوام متحدہ کے طرز پر انسانی حقوق کے تحفظ کی خاطر مذہبی قائدین پر مشتمل ایک انٹرنیشنل کونسل قائم کی جا رہی ہے جو مذہب کو دہشت گردی کے لیے استعمال کیے جانے والے تمام عناصر اور گروپس سے لاتعلقی کا اعلان کرے گی۔
مذاہب کا وجود انسان کی نظریاتی تسکین کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور انسانوں کی نظریاتی تسکین کے اس سب سے بڑے ذریعے کو اگر مذاہب میں نفرتیں پیدا کرنے کا ذریعہ بنالیا جائے تو یہ نہ صرف مذاہب کی توہین ہے بلکہ انسانوں کے درمیان نفرتیں پھیلانے کا افسوسناک سلسلہ بھی ہے۔مذاہب کو روح کی بالیدگی کا ذریعہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن کچھ عناصر ایسے ہیں جو ایک اچھے کاز کو برا بناکر انسانوں کے درمیان فاصلے قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے، دنیا کے دیگر ممالک جدید علوم سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایجادات سے فائدہ اٹھا کر اپنے عوام کو جدید دنیا کے قدم بہ قدم چلانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ سائنس ٹیکنالوجی اور جدید علوم کو دین و ایمان کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، ایک طرف مذہبی انتہا پسندی کے نقصانات اور دوسری طرف اعتدال پسندی کی بھی مخالفت ہم نے اپنے مستقبل کو ایسا چوں چوں کا مربہ بنادیا ہے کہ گوئم مشکل نہ گوئم مشکل کی صورت حال کا سامنا ہے۔
جن مذہبی اکابرین نے انسان کی اجتماعی بھلائی کے لیے انسان دوست تجاویز پیش کی ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان تجاویز کی مذہبی حلقوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر حمایت کی جاتی لیکن ان تجاویز کے حوالے سے کسی مذہبی حلقے کی طرف سے کسی مثبت ردعمل کا سرے سے اظہار ہی نہیں کیا گیا۔ یہ ایک مایوس کن صورتحال ہے جو دنیا میں ہمیں تنہائی کی طرف لے جائے گی۔ یہ بات بھی نہیں کہ مسلم معاشروں میں انسان دوست عناصر موجود ہی نہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ منفی فکر والے عناصر مادی وسائل اور وسیع تعلقات کے مالک ہیں چونکہ یہ محترمین مذہب کو منفی مقاصد اور ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں اور انسانوں کے درمیان تضادات کو اپنے ذاتی اور جماعتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں اس لیے یہ عناصر مذہبی رواداری اور انسان دوستی کی کوششوں کو اپنے ذاتی اور جماعتی مفادات کے لیے نقصان رساں سمجھتے ہیں۔ یہی ذہنیت انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور مذہبی رواداری کے جذبات کے فروغ میں حائل رہتی ہے۔
اس بیماری کا علاج یہ ہے کہ مذہبی رواداری کے حامی عوام میں جائیں اور عوام کو مذہبی تعصبات کے نقصانات اور مذہبی رواداری کے فوائد سے آگاہ کریں تو یقینا اس کے نتائج مثبت برآمد ہوں گے۔ بھارت آبادی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور اس ملک میں اظہار خیال کی آزادی بھی ہے لیکن اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں کی سیاسی قیادت تنگ نظر مذہبی انتہا پسندی کے قبیح مرض میں مبتلا ہے۔
آزادی کے حصول کے بعد بھارت میں جو کلچر پروان چڑھا اس میں ادیبوں، شاعروں، فنکاروں، مفکروں، دانشوروں نے نہایت اہم کردار ادا کیا جس کا نتیجہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان رواداری اور محبت کے جذبات فروغ پاتے رہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بھارتی سماج تیزی کے ساتھ مذہبی انتہاپسندی کا شکار ہوا جس کے منفی اثرات پاکستانی سماج پر بھی پڑتے رہے لیکن اس حوالے سے ایک انتہائی دلچسپ اور سبق آموز بات یہ ہے کہ بھارتی عوام کے مقابلے میں پاکستانی عوام قیام پاکستان کے بعد ہی سے فکری حوالے سے بھارتی عوام کے مقابلے میں زیادہ ترقی پسند اور روشن خیال رہے ہیں۔ عوام کی فکری اساس کا اندازہ واضح طور پر عام انتخابات میں لگایا جاسکتا ہے۔
بھارتی انتخابات میں بی جے پی جیسی مذہبی انتہا پسند جماعت دو بار برسر اقتدار آئی جب کہ پاکستان کے ہر انتخابات میں مذہبی جماعتوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ دونوں ملکوں کے عوام میں ایک واضح نظریاتی فرق ہے۔ بھارت پاکستان کے مقابلے میں ایک بڑا اور رنگ نسل زبان مذہب کے حوالے سے پاکستان سے زیادہ پیچیدہ ملک ہے رنگ نسل زبان قومیت کے حوالوں سے ہندوستانی عوام ایک بڑی تقسیم کا شکار ہیں لیکن اس حوالے سے ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ ان گہری تقسیموں کے باوجود ان حوالوں سے عوام میں وہ تقسیم وہ نفرتیں وہ تعصبات موجود نہیں جن کا امکان رہتا ہے کیا ہم اسے بھارت میں ترقی پسند طاقتوں کا بنیادی کردار کہہ سکتے ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم ممالک ایک شدید مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہیں اور کئی ملکوں میں اس حوالے سے خون خرابا بھی جاری ہے لیکن رائے عامہ کے جائزے سے اس کے برخلاف ایک اعتدال پسند معاشرے کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ اس کی ایک وجہ کیا یہ ہوسکتی ہے کہ یہاں محنت کش طبقات خاص طور پر مزدوروں کسانوں اور طلبا برادری میں ترقی پسند طاقتوں نے عرصے تک نظریاتی کام کیا؟ پاکستانی معاشرہ اپنی ساخت میں جاگیردارانہ وڈیرہ شاہی اور قبائلی معاشرہ ہے اور دیہی علاقوں میں اس کے اثرات بہت واضح ہیں لیکن کیا اسے شہری علاقوں کا ترقی پسندانہ کلچر کہیں کہ شہری علاقے انتہا پسندی کے زیادہ شکار نہیں؟