تحریر : شیخ خالد ذاہد
ناجانے کیوں دل اہم ترین معاملات پر بہت بے رحمی سے اپنی رائے دینے کیلئے مچلنا شروع کر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔ جیسے کوئی بچہ اپنے والدین کہ ساتھ بازار میں اپنی پسند کی کوئی بھی دیکھ کر مچلنا شروع کر دیتا ہے۔۔۔۔۔اب دل کے اس بے رحمی سے مچلنے کی وجہ وہ معاملات ہیں جو تقریباً عرض پاک پر قدم رکھنے والے، چلنے والے ہر دیہاتی و شہری کو درپیش ہیں (غور کرنے سے پتہ چلے گا کہ اب دیہات اور شہر کا فرق تقریباً ختم ہی ہوچکا ہے بجلی گاؤں میں بھی نہیں ہے ادھر شہر والے بھی اس نعمتِ سرکار سے محروم ہیں۔۔۔۔۔۔نکاسی آب کا مسلہ گاؤں میں بھی ہے اور شہر کی سڑکیں سڑ رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔شائد کوڑا کرکٹ کہ معاملے میں گاؤں ہم سے اچھے ہوں۔
کیونکہ ہماری تو ہر گلی سڑک میدان کچرا کنڈی کا نمونہ پیش کر رہا ہے ۔۔۔۔۔اسی طرح پینے صاف پانی کہیں بھی دستیاب نہیں۔۔۔۔۔۔اس کہ برعکس بیشتر امور گاؤں دیہاتوں میں شہروں سے اچھے ہونگے۔۔۔۔۔اب پاکستان کہ شہر تو نام کہ شہر رہ گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی کوئی سننے والا ہے۔۔۔۔۔۔۔پاکستان وہ ملک ہے کہ جس کا وزیرِاعظم ملک میں ہوں یا نہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔۔ جس کا جو دل چاہ رہا ہے کئے جا رہاہے۔۔۔۔۔کم از کم کراچی کی صورتحال تو ایسی ہی ہے۔۔۔۔۔)
مذکورہ بالا باتیں دل و دماغ کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔ہم نے دل کہ مچلنے کا تذکرہ کیا تھا۔۔۔۔حکومتِ وقت اور اپوزیشن کتنی خوبصورتی سے وقت کو برباد کر رہے ہیں۔۔۔۔۔محترم وزیرِ اعظم صاحب کی ملک میں داخلہ کیسا شایانِ شان ہوا یہ دیکھنے والوں نے دیکھا اور پڑھنے والے پڑھ کر بیٹھ گئے۔۔۔۔۔اب اسے وزیرِ اعظم صاحب کی خوش نصیبی جانئے کہ جس دن انہوں نے پاک سر زمین پر قدم رکھنے تھے قوم کو ایک ایسا صدمہ برداشت کرنا پڑا (ایدھی صاحب کی وفات) جسے قومی سانحہ قراد دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔۔۔۔۔وزیرِاعظم صاحب بہت خاموشی سے آئے اور اپنے محل میں روپوش ہوگئے۔
حکومتی لوگوں کو جو کہ ان کہ خاندان کے افراد بھی ہیں اپوزیشن کہ ساتھ مل کر وقت کو گزارنے کا مشن سونپا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔دوسری طرف کشمیر جنت نظیر کہ حالات کا ایک دم سے خراب ہونا۔۔۔۔۔داخلی مسائل سے عوام کا دھیان ہٹانا ہے ۔۔۔۔۔۔۔بھارتی دراندازی کا نیا دور چل رہا ہے ۔۔۔۔۔دنیا کو آج تک بھارتی افواج کی دہشت گردی نظر نہیں آئی اور نہیں آرہی ۔۔۔۔۔ دوسری طرف دنیا کہ سی بھی کونے میں کچھ ہو جائے تو اس کچھ کرنے والے کا تعلق پاکستان سے بنا ہی دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔یہ چیز تو دنیا کو بند آنکھوں سے بھی نظر آجاتی ہے اور پاکستان مخالف میڈیا پاکستان کی تحضیک کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے ہوئے دنیا جہان کی دہشت گردی پاکستان سے وابستہ کر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان اگر کشمیر کا حامی نہ ہوتا تو کوئی شک نہیں کہ دنیا بھارتی فوج کی وردیوں میں ملبوس بھارتی فوجیوں کو پاکستانی دہشت گرد کہنا شروع کر دیتی اور ساری اندھی بہری دنیا بھی اس بات پر یقین کر لیتی۔۔۔۔۔۔ بھارتی حکومت مزید فوج کشمیر بھیج رہی ہے۔
آج اخبارات میں ہمارے قومی رہنماؤں نے جو بیان سب سے زیادہ دیا ہے “دنیا بھارتی جارحیت کا نوٹس لے”۔۔۔۔۔بھارتی جارحیت کی کوئی حد نہیں ہے کشمیری بوڑھوں، نوجوانوں اور بچوں پر بیہمیانہ تشدد کی کئی اعلی مثالیں قائم کر رکھی ہیں۔۔۔۔۔ تو دوسری طرف دنیا کہ انصاف کہ ٹھیکے داروں کیلئے آج کہ اخبارات میں شایع ہونے والی چودہ سالہ انشال ملک نامی بچی کو ظلم اور بربریت کی منہ بولتی تصویر بنا دیا ہے۔۔۔۔۔۔کہیں کوئی آہ کی آواز تک نہیں آئے گی۔۔۔۔۔۔۔خون ہمارا بہہ رہا ہے ہم دوسروں سے مدد کی اپیل کئے جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔آخر ہم پاکستانی کب تک اپنے فیصلوں کیلئے دنیا کی طرف دیکھتے رہنگے۔۔۔۔۔۔
بھارتی مظالم کا سلسلہ بہت دیرینہ ہے ۔۔۔۔۔معلوم نہیں ایسی کونسی معاملہ فہمی ہمارے حکمران کے ذہنوں میں پوشیدہ ہے جسکو لے کر ایسی چپ سادھے بیٹھے رہتے ہیں جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا۔۔۔۔۔دوسری طرف الٹا چور کوطوال کو ڈانٹے کی مثال پر کاربند بھارتی بیان کہ “پاکستان دہشت گردوں کا حامی ہے” ۔۔۔۔۔یہ خبر خصوصی طور پر ہمارے ان تمام سیاست دانوں کیلئے تحفہ ہے جو بھارت سے تعلقات بڑھانے کہ حق میں رہتے ہیں۔۔۔۔۔یہ وہ لوگ ہیں جو دہشت گرد (بھارت) کہ حامی ہیں۔۔۔۔۔بھارت اپنی دہشت گردی صرف کشمیریوں کی جانیں اور عزتیں پامال کرنے تک ہی محدود نہیں رکھے ہوئے ہے۔۔۔۔۔بلکہ سماجی میڈیا پر بھی اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے ایسے لوگوں کہ فیس بک اکاؤنٹ بلاک کروا رہا ہے جو اس کا بھیانک (اصلی) روپ دنیا کہ سامنے پیش کر رہے ہیں۔۔۔۔۔لیکن یہ تو روزِ ازل سے طے ہے کہ “حق رہنے کیلئے ہے اور باطل مٹنے کیلئے” ۔۔۔۔۔۔ہم یہ نہیں کہتے کہ جنگ شروع کردیں۔۔۔۔۔ مگر دنیا کہ جتنے فورم ہیں بلخصوص اقوامِ متحدہ کہ انسانی حقوق کہ مندوبین کو مدوع کریں ۔۔۔۔۔ سلامتی کونسل کا اجلاس بلائیں ۔۔۔۔۔۔ اسلامی کانفرنس کا اجلاس ہنگامی بنیادوں پر بلائیں۔۔۔۔دولت مشترکہ کا اجلاس بلائیں۔۔۔۔۔غرض یہ کہ ہر سطح پر بھرپور طرح سے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم بند کروانے کیلئے کوشیشیں کریں۔۔۔۔۔
ابھی پانامہ لیکس کا معاملہ ختم نہیں ہوا۔۔۔۔۔بھارت کی جارحیت کہیں اس اہم ترین معاملے پر سے ہمارا دھیان ہٹانے کیلئے تو نہیں۔۔۔۔۔۔یقیناً ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔۔کشمیر میں جہاں انگنت قیمیتی جانوں کا نظرانہ پیش کیا جا رہاہے وہیں ہندو درندے وحشیانہ کاروایوں سے بھی باز نہیں آرہے۔۔۔۔۔۔دیکھنا یہ ہے کہ دنیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر کب سر جوڑ کر بیٹھے گی۔۔۔۔۔یا دنیا سر جوڑ کر بیٹھی ہوئی ہے صرف اسی کام کیلئے کہ مسلمانوں کا استحصال کیا جائے۔۔۔۔۔۔کیوں کہ ہم تو اپنی حالت پر خود ہی رحم نہیں کھا رہے تو کسی اور سے کیا توقع رکھیں کہ وہ ہمارے لئے کوئی پر امن حل نکالینگے ۔۔۔۔۔۔جی نہیں بلکل نہیں ۔۔۔۔۔۔ہم مسلمانوں کیلئے اور خصوصی طور پر پاکستانیوں کیلئے کوئی پر امن ڈھونڈنے کیلئے تیار نہیں۔۔۔۔۔یہ تمام وہ حقیقتیں ہیں جن سے ہم انفرادی طور پر نمٹنا چاہ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔یعنی پاکستان کا ہر شہری یہ سوچ رہا کہ یہ میرا مسلئہ نہیں ہے۔۔۔۔۔یہ میرا مسلئہ نہیں ہے۔۔۔۔۔پاکستان کمزور سے کمزور ہوا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ہم بٹے جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔
سیاسی و مذہبی جماعتیں روزانہ کی بنیاد پر پاکستان میں پیدا ہو رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی لاسانیت کو فروغ دے رہا ہے تو کوئی فرقہ واریت پر کمر کسے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔مذے کرنے والے مذے کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔دشمن اپنی چالیں بہت احسن طریقے سے چل رہا ہے۔۔۔۔۔۔ہم یہاں سرکاری خزانے سے ایک آدمی پر اتنا خرچ کر رہے ہیں کہ اگر کراچی جیسے شہر کو یہ پیسہ مل جاتا تو کم از کم کراچی سے کچرا اور نکاسی کا پانی تو صاف کروادیا جاتا۔۔۔۔۔۔لیکن اس ملک کہ وہ تمام ذمہ داران صاحب اختیار نہ جانے کب خوابِ غفلت سے جاگینگے۔۔۔۔۔۔ پانامہ لیکس اور دیگر اہم داخلی مسائل حل کرنے کیلئے جن میں بلدیاتی اختیارات کی منتقلی کا معاملہ بھی بہت اہمیت حاصل کرتا جا رہا ہے اسے جلد سے جلد حل کیا جائے۔۔۔۔۔۔
اس کیلئے کوئی خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے اور خارجی مسائل پر تمام حکومتی اور اپوزیشن کہ اہم اراکین ایک میز پر بیٹھ جائیں اور دنیا کو پیغام دیں کہ ہم داخلی مسائل کو اپنے وطن عزیز کی بقاء کی خاطر نظر انداز کردیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ہمیں ہمارے ملک کی کشمیر اور کشمیریوں کی فکر ہے ۔۔۔۔۔عوام ان مسائل میں بری طرح الجھے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔دشمن ان الجھے ہوئے لوگوں کو اپنے کسی ناجائز اور ملک دشمن عمل میں ملوث نہ کردے۔۔۔۔۔خداکیلئے پاکستانی ہو کر سوچئے ۔۔۔۔۔۔ان چھوٹے چھوٹے مسائل سے خود ہی نمٹنا سیکھیں۔۔۔۔۔۔ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داریاں خود اٹھانی ہونگی ورنہ ایک دن اس دارِفانی سے چلے تو جانا ہی ہے ۔۔۔۔۔۔