دنیا میں نفرت پھیلانے کا کاروبار ہزاروں برس سے جاری ہے۔ یہ نفرت عقیدے، علاقے، صنف، مسلک اور لسان کی بنیاد پر پھیلائی گئی۔ اس نفرت کی بنیاد دوسرے سے مختلف ہونا تھا۔ انسانوں کو انسانوں سے خوف محسوس کرایا جائے، اسی خوف کے دامن سے بندھی ہوئی تسلط کی خواہش تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم تہذیب کے ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے ’نفرت‘ کے اس زہر کو اپنی رگوں سے نچوڑ پھینکتے۔ لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔ ہم بظاہر جتنے مہذب، شائستہ اور تعلیم یافتہ ہوتے گئے، اسی رفتار سے ہمارے تعصبات اور ہماری نفرتوں میں اضافہ ہوتا گیا۔
اس حوالے سے دیکھا جائے تو بیسویں صدی کے شانوں پر مختلف نوع کی نفرتوں کا بھیانک پشتارہ ہمیں نظر آئے گا۔ دو عظیم جنگیں اسی صدی میں لڑی گئیں اور اسی کو ساری دنیا میں خوفناک علاقائی لڑائیوں، مذہبی بلوؤں اور نسلی صفائی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم نے برصغیر اس لیے تقسیم کرایا تھا کہ مسلمان اور ہندو چین سے اپنے اپنے علاقوں میں رہ سکیں گے۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔ دونوں طرف نفرتیں عروج پر ہیں اور ان سب کے درمیان انسان زندہ ہے۔
گزشتہ کچھ دہائیوں سے ملکی سطح پر ہمارے یہاں نفرت کو پھیلاتی اور ابھارتی ہوئی تقریروں اور تحریروں کا جو سیلاب آیا ہے، وہ ناقابل یقین ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اب سے پہلے نفرت کے زہر میں بجھی ہوئی باتیں ہمیں سننے یا پڑھنے کو نہیں ملتی تھیں لیکن اب تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تہذیب، تحمل اور رواداری کے بند ٹوٹ گئے ہیں اور بدکلامی، فحش گفتاری اور دشنام طرازی کا ایک سیلاب ہے جو سب کچھ بہائے لیے جا رہا ہے۔
کسی بھی سماج کے لیے یہ ایک الم انگیز بات ہوتی ہے کہ غیر ذمے دار اور کینہ پرور افراد خود کو نمودار ثابت کرنے کے لیے ہر شریف انسان کے دامن پر کیچڑ اچھالیں، ہر جھوٹ کو اتنی بار دہرائیں کہ وہ سچ محسوس ہو۔ اس کام کو فن کا درجہ نازی رہنما گوئبلز نے دیا تھا، یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس حوالے سے اسے یاد کیا جاتا ہے۔
عالمی سطح پر اس وقت دنیا کے بیشتر ملکوں میں نفرت اور تعصبات کو بڑھاتی ہوئی تقریروں اور تحریروں کے بارے میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ دنیا نے ابھی امریکا میں تقسیم در تقسیم کرنے والے اس بیانیے کو بار بار سنا ہے جس کا اب سے پہلے کوئی تصور نہ تھا۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ امریکا کا کوئی صدارتی امیدوار نفرت انگیز باتیں کرنے میں اخلاقی حدوں کو پار کر سکتا ہے۔
گزشتہ برسوں کے دوران ترکی، سوئیڈن، فرانس، ہنگری، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، بلجیئم، روس اور لیتھونیا میں کئی لوگوں پر نفرت انگیز تحریروں یا مشتعل کرنیوالے کارٹونوں اور تقریروں پر مقدمے چلے ہیں۔ اس حوالے سے حساسیت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:قطری خط شریف خاندان کے بیانات کی تردید ہی تو ہے
اسی نومبر کے مہینے میں سری لنکا کی حکومت نے ایک مسلمان عبدالرزاق اور ایک سنہالی ڈان پریاسد کو ہندوؤں اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے الزام میں 29 نومبر تک کے لیے حراست میں لے لیا ہے۔ سنہالی صاحب تمام مسلمانوں کو قتل کرنا عین ثواب قرار دے رہے تھے، اسی طرح عبدالرزاق صاحب بھی کولمبو اور آس پاس کے شہروں کا امن و امان تہہ و بالا کرنے پر تلے ہوئے تھے۔
واشنگٹن سے خبر آئی ہے کہ مغربی ورجینیا کے میئر کو اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہونا پڑا ہے۔ موصوف ایک نسل پرست ہیں، اپنے جذبات کے اظہار میں وہ اتنا بڑھے کہ انھوں نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر یہ لکھ دیا کہ اب اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی ایک باوقار اور مہذب خاتون اول کو ہم دیکھ سکیں گے۔
8 برس سے ہم ایک ایسی خاتون اول کو دیکھ رہے ہیں جو اونچی ایڑیوں کے جوتوں میں مادہ بن مانس نظر آتی ہے۔‘‘ چند ہی گھنٹوں بعد یہ پوسٹ فیس بک سے ہٹا لی گئی۔ میئر نے یہ بھی کہا کہ اس کا مقصد کسی کی دلآزاری نہ تھا لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ میئر کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔
ادھر ’دی ہیگ‘ میں ایک ممبر پارلیمنٹ گیرٹ ویلڈر پر شدید تنقید کی جا رہی ہے کیونکہ انھوں نے مراکش کے لوگوں کو اپنی نفرت کا نشانہ بنایا تھا۔ گیرٹ کا تعلق دائیں بازو کے انتہا پسند گروپ سے ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں اور دوسرے اقلیتی گروہوں کے خلاف نفرت انگیز تقریریں کرتے ہیں اور اس بات کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ کم سے کم مسلمانوں کو نیدرلینڈز میں ہونا چاہیے۔ گیرٹ پر 5000 یورو کا جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔
ایک طرف نفرت انگریز اور مشتعل کر دینے والی تحریریں اور تقریریں ساری دنیا میں تنقید کا نشانہ بن رہی ہیں، دوسری طرف بعض گروہوں کی جانب سے مختلف تہذیبی اور ثقافتی آثار اور علاقوں کو دانستہ تباہ کرنے کے واقعات کا انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے بہت سختی سے نوٹس لیا ہے اور اسے جنگی جرائم کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔
2012ء میں مالے کے دارالحکومت ٹمبکٹو میں احمد الفاقی المہدی کو گرفتار کیا گیا جو خود کو اخلاقی معاملات کی نگرانی کا سربراہ ہونے کا دعویٰ کرتا تھا۔ اس نے نہ صرف یہ کہ علاقے میں رقص و موسیقی کو ممنوع قرار دیا بلکہ ٹمبکٹو میں صدیوں پرانے معبدوں کو تباہ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لوگ آثار قدیمہ کو کفر کی علامت قرار دے کر تباہ کرتے ہیں اور اس کے بعد جو کچھ بچ جاتا ہے اسے انفرادی طور پر ان آثار کے شائقین کے ہاتھوں مہنگے داموں فروخت کر دیتے ہیں۔
2015ء میں اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے اس قسم کے واقعات کو دہشتگردی سے جوڑ کر دیکھا۔ یہ کہا گیا کہ اس نوعیت کے اقدامات کا ایک مقصد آثار قدیمہ کی بربادی کے ساتھ ہی بچ رہنے والے سامان کو چور بازار میں فروخت کر کے حاصل ہونے والی رقوم سے اسلحہ خریدا جاتا ہے جو دہشتگردی کے کاموں میں استعمال ہوتا ہے۔ ان واقعات کو جنگی جرائم قرار دینا اس لیے بہت اہم ہے کہ اس شق کے تحت گرفتار ہونیوالوں کو اب سخت سزائیں دی جا سکیں گی۔
90ء کی دہائی میں اس نوعیت کے متعدد واقعات یوگو سلاویہ میں ہوئے تھے اور اس وقت بھی تاریخ داں اور ماہرینِ آثار قدیمہ نے یہی کہا تھا کہ کسی بھی خطے کے ثقافتی آثار کی جان بوجھ کر تباہی کو جنگی جرم قرار دیا جائے اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں۔
ان جرائم میں ملوث افراد صرف اس مخصوص علاقے کے لوگوں کے جذبات کو ہی مجروح نہیں کرتے بلکہ ان کے اندر نفرت اور اشتعال بھی بھڑکاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ پوری عالمی برادری کو اس کے ثقافتی ورثے سے محروم کر کے پوری دنیا کے لوگوں کو صدمہ پہنچاتے ہیں۔ اس بارے میں بامیان کے بدھ مجسموں اور پامیرا کے شاندار آثار قدیمہ کی بربادی کا خاص طور سے ذکر کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ہم کھیل نہیں صرف پیسے کا کھیل کھیلنا جانتے ہیں
مالے سے تعلق رکھنے والے احمد المہدی کو ان ہی جرائم کے ارتکاب کی بنا پر 9 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ٹمبکٹو میں 5 قدیم اور تہذیبی آثار مہدی کے حکم پر تاراج کیے گئے۔ یہ عمارتیں نہ صرف مذہبی اہمیت رکھتی تھیں بلکہ ان سے وہاں کے رہنے والوں کی گہری جذباتی وابستگی بھی تھی۔ وہاں رہنے والے بہت سے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ان عمارتوں کی وجہ سے شہر پر بلائیں نازل نہیں ہوتیں۔ یہ عمارتیں جو احمد المہدی کے حکم سے تباہ کی گئیں، ان کا تعلق اہم اور محترم مسلمان رہنماؤں اور دانشوروں سے تھا۔
پاکستان میں جب سے انتہا پسندوں کا عروج ہوا اسی وقت سے ہمارے یہاں بھی نہ صرف نفرت انگیز تحریروں اور تقریروں کا سیلاب امڈا بلکہ ان بہت سی درگاہوں اور مزاروں کی بے حرمتی کی گئی، جن کا تعلق عوام سے ہے اور جو ان جگہوں کو نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بری امام، داتا گنج بخش، رحمان بابا اور ان گنت صوفیا کے مزاروں کی بے حرمتی کی گئی اور وہاں ہزاروں عقیدت مند بارود سے اڑا دیے گئے۔ سید بلاول شاہ نورانی کے مزار پر ہونے والا خودکش دھماکا اس طرح کے المناک واقعات کی تازہ ترین مثال ہے۔
اس نوعیت کے دھماکے اس لیے کیے جاتے ہیں تا کہ لوگ اولیا اور صوفیا کے مزاروں پر جانے کی ’بدعت‘ سے باز رہیں۔ اس کے باوجود عقیدت مندوں کا سیلاب ہے جو ان جگہوں پر امڈ کر آتا ہے اور یہی انتہاپسندوں کی سب سے بڑی شکست ہے۔
کسی بھی مسلک، مذہب، صنف، زبان یا علاقے کی بنیاد پر لوگوں کو نفرت انگیز تقریروں اور تحریروں سے اکسانے کی کوشش ہو یا ان کے محترم اور مقدس مقامات کی بے حرمتی ہو، لوگ سب کچھ سنتے ہیں، دیکھتے ہیں، المناک سانحوں سے گزرتے ہیں اس کے باوجود اپنے اپنے اعتقادات پر ان کا ایمان متزلزل نہیں ہوتا اور عالمی انسانی برادری سے ان کا تعلق ختم نہیں ہوتا۔ انتہاپسندوں کی یہی سب سے بڑی شکست ہے۔