اسلام آباد(یس اردو نیوز) کوروناوائرس کی عالمگیروباء اوراقتصادی کساد بازاری سے موثراندازمیں نمٹنے کے لئے بین الاقوامی تعاون ناگزیرہے۔ وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے اقوام متحدہ کی اقتصادی اورسماجی کونسل کے اعلیٰ سطح کے سیاسی فورم سے ویڈیولنک پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے قیام کے پچھتر برسوں میں یہ دنیا کو پیش آنے والا بہت بڑا چیلنج ہے۔لاکھوں افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔دنیا کو اس کے تدارک کیلئے مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔1930 کے گریٹ ڈپریشن کے بعد یہ دوسرا بڑا معاشی بحران ہے دنیا جس کا سامنا کر رہی ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ وبا اس وقت تک خطرے کی گھنٹی بجاتی رہے گی جب تک ہر ایک شخص کو محفوظ نہیں بنا لیا جاتا۔انہوں نے کہا کہ ماہرین کے مطابق اس وبا کے نتیجے میں عالمی معیشت 5 فیصد تک سکڑ سکتی ہے۔اس وائرس کے مضمرات کا سامنا کمزور معیشتوں اور غریب ممالک کو سب سے زیادہ کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا ہم افلاس اور وائرس دونوں کے خلاف نمبرد آزما ہیں۔وزیرخارجہ نے کہا کہ ہم عالمی مالیاتی ادارے، عالمی ادارہ صحت اور ورلڈ بینک کی کاوشوں کا بھی خیرمقدم کرتے ہیں ۔اس بحران نے عالمی معاشی نظام کی خامیوں کو بھی آشکار کیا ہے اس وبائی صورتحال میں کس طرح ڈیڑھ ارب آبادی پر مشتمل متمول اقوام نے دس کھرب ڈالر اس وبا سے نمٹنے اور صحت کے شعبے کی ترقی کیلئے جمع کئے جبکہ تقریباً سات ارب نفوس پر مشتمل ترقی پذیر ممالک 1کھرب ڈالر اکٹھا کرنے کیلئے کس قدر کوششیں کر رہے ہیں جو کہ جی ڈی پی کا بمشکل ایک فیصد بنتا ہے۔ پاکستان نے اپنی کم معاشی استطاعت کے باوجود، اس وبا سے نمٹنے اور غریب طبقے کی معاشی بحالی کیلئے 8 ارب ڈالر کی رقم مختص کی ہے جو ہماری جی ڈی پی کا تین فیصد بنتا ہے۔عالمی ماہرین کے مطابق ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو سہارا دینے کے لیے تقریباً 2.5 کھرب ڈالر درکار ہوں گے جو کہ ایک بہت خطیر رقم بنتی ہے۔۔وزیرخارجہ نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے اس سلسلے میں فوری معاشی معاونت کیلئے ترقی پذیر ممالک کیلئے قرضوں میں چھوٹ کی تجویز دی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے غیر قانونی طور پر حق خود ارادیت کو چھیننے والی چند غاصبانہ قوتوں کے طرز عمل نے اقوام متحدہ کی اس اجتماعیت کی روح کو گہنا دیا ہے۔ہمارا اشارہ ان مظالم کی طرف ہے جو مقبوضہ جموں و کشمیر کے نہتے انسانوں پر ڈھائے جا رہے ہیں۔اس عالمی وبا اور معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے عالمی سطح کا تعاون درکار ہے جس کے لیے اقوام متحدہ بہترین فورم ہے۔ تمام عالمی و علاقائی تنازعات کا حل اقوام متحدہ کے چارٹر پر عملدرآمد کو یقینی بناتے ہوئے گفت و شنید اور پرامن مذاکرات کا راستہ اپناتے ہوئے تلاش کیا جا سکتا ہے۔ریاستوں کے مابین ایک دوسرے کی جغرافیائی سالمیت کا احترام انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے یا الزام تراشی کا یہ وقت نہیں ہے ۔کرونا وبائی چیلنج سے نمٹنے، 2030 ایجنڈا کی تکمیل، اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے اقتصادی اور سماجی کونسل کے مرکزی کردار کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق بحال کیا جانا ناگزیر ہے۔