اسلام آباد(نامہ نگارخصوصی)افغانستان میں امریکی جنگی جرائم کی تحقیقات کرنے والی عالمی فوجداری عدالت کے اہلکاروں کو افغانتسان داخلے سے روک دیا گیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتظامی حکم کے تحت ان اہلکاروں کے افغانستان داخلے پرپابندی عائد کردی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ روس نے عالمی فوجداری عدالت کے اہلکاروں کے ساتھ ساز باز کی ہے جس نے امریکہ کی حاکمیت اور خود مختاری کو چیلنج کیا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کے ایک عہدیدار کے مطابق حکم نامے میں یہ ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ امریکہ کی اجازت کے بغیر امریکی اہلکاروں کی تفتیش کرنے میں ملوث آئی سی سی کے کسی بھی ملازم پر پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک جعلی عدالت کی جانب سے اپنے لوگوں کو خطرے میں ڈالنے پر خاموش نہیں رہ سکتے۔ انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے کارکنان نے ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام پر تنقید کی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی واشنگٹن کیلئے ڈائریکٹر اینڈریا پریسو کا کہنا تھا کہ یہ اقدام عالمی سطح پر قانون کی حکمرانی کی توہین کا اظہار ہے، اور یہ رکاوٹ ڈالنے کی ایک شوریدہ سر کوشش کی ترجمانی کرتا ہے۔ ایوانِ نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی کو بھیجے گئے خط کے مطابق، صدر ٹرمپ کا حکم نامہ، وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو وزیر خزانہ سٹیو منوچن کے مشورے سے یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ عالمی عدالت برائے جرائم کے ان ملازمین کے امریکہ میں موجود اثاثوں کو منجمد کر دیں، جو امریکی افواج کے خلاف تحقیق میں ملوث ہیں۔ حکم نامے میں مائیک پومپیو کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ متعلقہ ملازمین اور ان کے اہلِ خانہ کی امریکہ میں داخلے پر بھی پابندی عائد کر سکتے ہیں۔ آئی سی سی کے پراسیکیوٹر فاتوبین سودا سن 2013 سے لیکر سن 2014 کے درمیان افغانستان میں ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کرنا چاہتے ہیں۔ ان تحقیقات میں اس عرصے کے دوران، طالبان کے ہاتھوں وسیع پیمانے پر عام شہریوں کی ہلاکتیں، اس کے ساتھ افغان حکام کی جانب سے قیدیوں پر مبینہ تشدد، اور ذرا کم درجے پر امریکی افواج اور سی آئی اے شامل ہیں۔ اس سال مارچ میں ان تحقیقات کی اجازت دے دی گئی تھی۔ کسی بین الاقوامی ادارے کے خلاف یہ صدر ٹرمپ کا تازہ ترین اقدام ہے۔ گزشتہ ماہ صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ساتھ امریکہ کے تعلقات منقطع کر دیں گے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی صدارت کے دوران سب سے پہلے امریکہ کی پالیسی کو فروغ دیا ہے۔ افغانستان آئی سی سی کا رکن ہے۔ تاہم اس کا موقف ہے کہ جنگی جرائم کے خلاف کاروائی مقامی سطح پر عمل میں لائی جانی چاہئیے۔ امریکی اٹارنی جنرل ولیم بار کا کہنا ہے کہ محکمہ انصاف کو ایسے قابل یقین ثبوت موصول ہوئے ہیں، جن سے تشویش گہری ہوتی ہے کہ پراسیکیوٹر کے دفتر کی اعلی سطح پر مالی بدعنوانی اور دھوکہ دہی کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ ری پبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے سابق صدر جارج بش کے دور میں محکمہ خارجہ کے اعلی ترین وکیل جان بیلنجر کا کہنا ہے کہ دونوں فریق اس تنازع سے بچ سکتے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ امریکہ اور آئی سی سی کے درمیان دیرینہ تنازع اب نچلی ترین سطح پر آ گیا ہے۔ پراسیکیوٹر کو امریکہ کے ساتھ ایسی کسی لڑائی میں نہیں الجھنا چاہئیے تھا، جس سے عدالت کیلئے عالمی حمایت کی اہمیت کم ہو۔ بیلنجر کا کہنا تھا کہ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اتنا زور دار ردِ عمل ظاہر کیا ہے اور پابندیوں کی بات کی ہے، خاص کر انتخابات کے سال میں۔ ٹرمپ انتظامیہ ایک سال پہلے ہی آئی سی سی کے متعلقہ ملازمین پر سفری اور دیگر پابندیاں عائد کر چکی ہے۔ “وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیلے مک اینینی کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کو جنگی جرائم کی جوابدہی کیلئے قائم کیا گیا تھا، لیکن عملاً وہ ایک ناقابل توجیہہ اور غیر موثر عالمی افسر شاہی ہے جو امریکی ملازمین کو نشانہ بنانے اور دھمکانے کے ساتھ ساتھ ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کو بھی دھمکاتی اور نشانہ بناتی ہے۔ عالمی برادری نے سن 2002 میں اس عالمی عدالت برائے جنگی جرائم کو قائم کیا تھا۔ اس کا مقصد جنگی جرائم، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کی عدالتی کاروائی کرنا تھا۔ عدالت کے پاس صرف یہ اختیار ہے کہ وہ اس صورت میں کاروائی کرے گی جب، رکن ملک، جرائم کے خلاف کاروائی کے قابل نہ ہو یا کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔ امریکہ کبھی اس عدالت کا رکن نہیں رہا۔
سن 2017 میں پراسیکیوٹروں کی جانب سے ابتدائی جانچ کے بعد، آئی سی سی کو ایسی معقول بنیادیں ملیں، جن کی وجہ سے وہ اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ افغانستان میں جنگی جرائم کا ارتکاب ہوا اور عدالت کو اس پر کاروائی کا اختیار حاصل ہے۔