واشنگٹن (ویب ڈیسک) عالمی مالیاتی فنڈز ایک عالمی تنظیم ہے ۔اور دنیا بھر کے 189 ممالک اس کا حصہ ہیں۔ آئی ایم ایف مختلف ممالک کی اندرونی معیشتوں اور ان کی مالیاتی کارکردگی بالخصوص زر مبادلہ اور بیرونی قرضہ جات پر نظر رکھتا ہے اور ان کی معاشی ترقی اور مالی خسارے سے نبٹنے کے لیے قرضےاور تیکنیکی معاونت فراہم کرتا ہے۔
دیے جانے والے بیل آؤٹ پروگرامز کے تحت آئی ایم ایف سرمائے کی فراہمی اور ان مراعات کو حاصل کرنے والے ممالک سے مختلف اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ آئی ایم ایف کی پالیسی کے مطابق ادھارلینے والے ممالک کو اس کی شرائط واشنگٹن رائے شماری پر پورا اترنا پڑتا ہے۔ بظاہر تو اس میں حکومتوں سے عوام پر اخراجات کرنے اور منڈیوں کو آزاد کرنے کی بات ہوتی ہے لیکن عموماً یہ شرائط عوام پر قرضوں کے بھاری بوجھ کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ بعض ممالک کا یہ موقف بھی رہا ہے کہ آئی ایم ایف نے اقتصادی پالیسی اور ڈھانچے میں تبدیلیوں کے ایسے مطالبات کیے کہ جن کے باعث ان کی اقتصادیات تباہ ہوگئی۔دوسری جانب آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہےکہ عالمی سطح پر معاشی صورتحال نازک اور اقتصادی منظرنامہ غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے جس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ کی چیف اکانومسٹ گیتا گوپی ناتھ نے خبردار کیا کہ عالمی سطح پر مالی بحران کے بعد سے عالمی اقتصادیات میں مہنگائی بڑھ رہی ہے۔امریکا اور چین کے درمیان تجارتی جنگ اور بریگزٹ جیسے عوامل کاروباری اعتماد اور سرمایہ کاری میں کمی کا باعث ہیں۔انہوں نے خبردار کیا کہ عالمی اقتصادی منظر نامہ خطرات سے گھرا ہوا ہے، انہوں نے پالیسی سازوں پر زور دیا کہ وہ جیو پولیٹکل کشیدگی اور تجارتی تنازعات کے حل کی تلاش کیلئے کام کریں۔صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نےکہا کہ وہ کشیدگی کے خاتمے کیلئے کیے جانے والے اقدامات کا خیر مقدم کریں گے۔
کراچی میں قتل کی جانیوالی مصباح کے والد نے بیٹی کے قاتل کی شناخت کرلی
اسلام آباد ہائیکورٹ نے فضل الرحمان کا دھرنا روکنے سے متعلق درخواستیں نمٹا دیں