دنیا کی تاریخ میں متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں جب انتہا پسند گروہوں نے شدت پسندی کا راستہ ترک کر کے پُرامن راستے کا انتخاب کیا۔ اُس کے بعد ان تنظیموں نے نہ صرف اپنے شرپسندانہ نظریات اورعقائد یکسر تبدیل کئے بلکہ وہ اپنا انتہا پسند بیانیہ چھوڑ کر سیاسی دھارے میں شامل ہو گئے۔ ایسی ہی ایک مثال 1960ء میں عسکری ونگ قائم کرنے والی افریقن نیشنل کانگرس(اے این سی) کی ہے جو ماضی میں جنوبی افریقہ کی فوج اور قومی تنصیبات کے علاوہ غیر ملکی سرمایہ کاروں پر حملوں جیسی کارروائیوں میں ملوث رہی مگر جب وہ انتہا پسندی کا راستہ چھوڑ کر سیاسی دھارے میں شامل ہوئی تو اس نے نیلسن مینڈیلا جیسی عالمی شہرت کی حامل ایک عہد ساز شخصیت کو جنم دیا۔
ایسے ہی مغرب میں آئرش ریپبلکن آرمی(آئی آراے) کی مثال موجود ہے جو ساٹھ سے نوے کی دہائی کے دوران مغربی یورپ کی سب سے بدنام ترین دہشت گرد تنظیم سمجھی جاتی تھی مگر جب وہ انتہا پسند روش چھوڑ کر سیاسی دھارے میں شامل ہوئی تو اسے آئرش معاشرے میں پزیرائی ملی۔ اسی طرح مشرق وسطیٰ میں حماس کی مثال موجود ہے جو کہ یقیناً پاکستان کے لئے سبق آموز بھی ہے کیونکہ حال ہی میں پاکستان کی ایک انتہا پسند تنظیم جماعت الادعوۃ نے بھی سیاسی دھارے میں شامل ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ حماس اور جماعت الادعوۃ میں ایک مسابقت قائم کی جا سکتی ہے۔ جوجماعت الدعوۃ کی جانب سے ہونے والی حالیہ پیش رفت کو سمجھنے میں معاون ثابت ہو سکتی۔ جو کہ درج ذیل نکات پر مشتمل ہے۔
(ا) تشدد ترک کرنا جو کہ حماس نے کبھی بھی نہیں کیا۔
(ب) سیاسی تدبر کا اظہار کرنا۔ ابھی تک جماعت الدعوۃ کی جانب سے اس کا اظہار نہیں کیا گیا کہ کل تک وہ جس موقف یا حکمت عملی کے قائل تھے وہ غلط تھی۔ بلکہ وہ ملی مسلم لیگ کے قیام کو اپنی سابقہ جدوجہد کا تسلسل قرار دے رہے ہیں۔
(ج) تیسرا نکتہ ہے کہ کیا انتہا پسند تنظیم کا نظریہ، پاکستان کی جمہوری اقدار سے تال میل کھاتا ہے؟ یہ نکتہ کسی صورت بھی جماعت الدعوۃ کے فکری عمل سے مسابقت نہیں رکھتا۔ جیسا کہ وہ ماضی میں اس جمہوری نظام کو متعدد بار کافرانہ نظام قرار دے چکے ہیں۔
(د) چوتھا نکتہ ہے سیاسی جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ کیا ہوگا؟ سیاسی جماعت بن جانے کے بعد پارٹی کی باگ ڈور کن لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی؟ جماعت الدعوۃ کے کیس میں سیاسی پارٹی کی باگ ڈور حافظ سعید کے ہاتھ میں ہی رہنے کا امکان ہے۔ جن پر پہلے ہی سے اقوام متحدہ کی جانب سے پابندی عائد ہے۔ وہ غلط ہے یا صحیح، وہ بالکل الگ بحث ہے۔
(ہ) آخری نکتہ ہے کہ کیا اس سیاسی جماعت کو ملکی اورغیر ملکی سطح پرپزیرائی ملتی ہے یا نہیں؟ آیا حکومتِ پاکستان اور الیکشن کمیشن ان کی رجسٹر یشن ہونے دیں گے؟ اورامر یکہ ،برطانیہ اور یورپ اس پیش رفت پر کیسا ردعمل دیتے ہیں؟
قومی دھارے میں شامل ہونے کا مفہوم صرف سیاسی دھارے میں شامل ہونے تک محدود نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اس گروہ یا تنظیم کو اپنی افتادِ طبع کے مطابق کسی اور میدان کا انتخاب کرنے میں بھی کسی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لینا چاہیئے۔ جیسا کہ معاشرے میں انسدادِ انتہا پسندی کے ضمن میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہونا تاکہ لوگ ان کے رویوں میں اس بدلاؤ کی وجہ جان سکیں اور آئیندہ وہ بھی انتہا پسند رجحانات سے خود کو دور رکھیں۔
المختصر،ملک کے سیاسی دھارے میں شامل ہونا جماعت الدعوۃ کا شعوری فیصلہ ہے، یا کسی خارجی دباؤ سے بچنے کا محض ایک حیلہ یا پھر یہ حقیقی قلبِ ماہیت کا نتیجہ ہے؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مگر اگر پاکستان میں یہ ہوتا ہے تو یہ ہرگز اچنبھے کی بات نہیں سمجھی جانی چاہیئے کیونکہ بیشتر عالمی انتہا پسند تنظیمیں ایسی تاریخ پہلے ہی رقم کر چکی ہیں۔
علاوہ ازیں یہ حقیقت بھی اپنی جگہ عیاں ہے کہ اگر کوئی بھی انتہا پسند تنظیم قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے ہتھیار ڈال کر اپنی شرپسندانہ روش یکسر ترک کرتی ہے تو یہ بھی ریاست کی ہی فتح تصور کی جاتی ہے۔ لہٰذا تمام قابلِ احترام ناقدین اور دانشور حضرات سے میری یہ مودبانہ درخواست ہے کہ جماعت الدعوۃ کے اس ذاتی نوعیت کے فیصلے کو پاک فوج یا پاکستان کی ریاست سے جوڑ کر پاکستان کی عالمی سطح پر کی جانے والی لاتعداد مثبت کاوشوں پر پانی نہ پھیریں۔
بین الاقوامی میڈیا کا تو یہ کام ہے کہ پاکستان پر بنا ثبوت کے انگلی اٹھائے کیونکہ یہ ان کا ملک نہیں ہے۔ مگر یہ ملک آپ سب( پاکستانی دانشوروں، ادیبوں، تجزیہ نگاروں) کا تو ہے لہٰذا بین الاقوامی میڈیا پر اپنے ملک سے متعلق متعدد اُمور پر اپنا تجزیہ پیش کرتے وقت اگر آپ تجزیہ نگار کی بجائے اپنے ملک کے سفارتکار بن کر بات کریں گے تو یقین مانئیے پاکستان کو کسی بھی لابنگ فرم کی خدمات حاصل کرنی کی حاجت باقی نہیں رہے گی.