اسلام آباد(ایس ایم حسنین) پی آئی اے طیارہ حادثہ کی تحقیقاتی رپورٹ منظرعام پرآنے کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر میں پاکستانی پائلٹس کے جعلی لائسنس کے معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھا جارہا ہے۔ وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان کی طرف سے قومی ائرلائن کے ایک تہائی پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کے دعوے کے بعد عالمی میڈیا نے ایک طوفان کھڑا کردیا ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے کے تعلق رکھنے والے رچرڈ کوئسٹ نے اسے ایوی ایشن سیکٹر کا سب سے بڑا سکینڈل قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایوی ایشن اتھارٹی کی طرف سے ایک تہائی پائلٹس کے جعلی لائسنس کا معاملہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے ایسا دنیا میں پہلے اور کہیں نہیں ہوا۔ یہ ایوی ایشن کی صنعت کا ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے۔ جوکہ پاکستان می طیارہ حادثہ کی تحقیقاتی رپورٹ میں سامنے آیا ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن کہہ رہی ہے کہ اس کے ایک تہائی پائلٹس کے پاس فضا میں اڑان بھرنے کا مجوزہ لائسنس نہیں ہے۔ ایک ملک یہ حقیقت تسلیم کر رہا ہے کہ کمرشل ائرلائن سیکٹر میں جعلی لائسنس استعمال ہورہے ہیں۔ یہ پاکستان میں ائرلائن سیکٹر کے حفاظتی اقدامات پر سوالیہ نشان ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے نے پاکستان میں پائلٹس کے امتحانی نظام پر بھی سوالات اٹھاتے ہیں تاہم میزبان کے سوال پرامریکی صحافی رچرڈ کوئسٹ نے تسلیم کیا کہ امریکہ میں بھی ایسے کیسز پائے جاتے ہیں جن میں دھائیوں تک زاہدالمعیاد لائسنس رکھنے والے پائلٹس ائرلائن سیکٹر میں کام کرتے رہے ہیں مگر ان میں بہت اچھے پائلٹس شامل ہوتے ہیں جو پیپرورک وغیرہ جانتے ہیں۔ مگرامریکی پائلٹس کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ پاکستانی ائرلائن کا معاملہ ایک فراڈ کی ہول سیل طرز کا معاملہ ہے۔ آپ اسے کیا کہیں گے کہ لوگ فضا میں اس کے ساتھ سفرکررہے ہیں جس کو فضا میں اڑان بھرنی ہی نہیں چاہیے۔