تحریر : رانا ابرار
پوری دنیا میں اسوقت معاشی ، معاشرتی ، سیاسی ترقی کے ساتھ کچھ سالوں میں مغربی ، یورپی اور مسلمان معاشروں میں بہت اختلاف آیا ہے ۔ مسلمانوں کو دنیا کے سامنے دہشت گرد پیش کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی گئی ہے اور اس کا سہرا میڈیا کے سر جاتا ہے کہ کس طرح سے مسلمانوں کا منفی کردار پیش کر کے مسلم دنیا کا دوسری دنیا کے ساتھ اختلاف پیدا کرنا ہے۔ یہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی آپسی لڑائی میں بھی سب سے بڑا ہاتھ میڈیا کا ہے۔ یکطرفہ نہیں بلکہ دونوں طرف سے ،مسلمانوں کو دوسری دنیا کا مکروہ چہرہ دکھایا گیا اور غیر مسلم کمیونٹی کو یہ دکھایا گیا کہ مسلمان کیسے ظالم ہیں اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
آج کے دور میں جنگ میڈیا سے شروع ہوتی ہے اور میڈیا پر ختم ہوتی ہے وہ کیسے جی ؟ تو وہ ایسے جی کہ میڈیا عوام کا فیصلہ سناتا ہے اب اللہ جانے وہ عوام کیا کہنا چاہ رہی ہے یا کیا چاہتی ہے لیکن اسکا فیصلہ میڈیا کرتا ہے ۔ اس ترقی یافتہ دور میں جو جنگ ایک مرتبہ شروع ہو رہی ہے وہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ۔ کیونکہ عوام کو جلد اور فوری حقائق سے باخبر رکھنے کا کام میڈیا کررہا ہے ۔ پہلے وقتوں میں جنگیں ہوتیں تھیں تو میدان جنگ میں موجود اگلی صف میں جو ہورہا ہوتا تھا وہ پچھلی صف کو معلوم نہیں ہوتا تھا جب شام کو فوجی اپنے خیموں میں پہنچتے تب جا کر کے ان کے درمیان اس موضوع پر بات ہوتی کہ آج کیا کارکردگی رہی ۔ اور اس طرح جن قوموں کی فوج جنگ لڑرہی ہوتی تھی ان کو کچھ دن بعد پتہ چلتا کہ کیا معاملہ ہوا جب انکی فوج جیت کے ساتھ واپس اپنی ریاست میں آتی یا ہار کے ساتھ دشمن کی فوج کے زیرِاثر گھر واپس آتی ۔ پوری دنیا میں انکی جنگی کہانیاں بڑے عرصے بعد پہنچتی تھی ۔ اگراس دوران اس میں غیر معیاری مواد شامل ہو بھی جاتا تو خاطر خواہ اسکا عوام پر اتنا گہرا ثر نہیں ہوتا تھاجتنا عوام آج لیتی ہے ۔ بریکنگ نیوز کی شکل میں۔
آج بادشاہ کا کتا بھی مرتا ہے تو وہ بھی میڈیا پر آتا ہے اور اسکے ساتھ دکھ بھرے الفاظ میں اظہار تعزیت بھی کیا جاتا ہے ۔ اب جنگیں میدان جنگ میں نہیں بلکہ پر آسائش کمروں میں بیٹھ کر لڑی جاتی ہیں۔ مخالف فوج کوشکست دینے سے زیادہ لوگوں کی رائے پر محنت کی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں اپنی فتح کا شورکیا جاتا ہے۔ 5 سے 7 منٹ کے دورانیے پر مشتمل ایک ویڈیو کلپ چلایا جاتا ہے جو حالات کی کایا پلٹ کر رکھ دیتا ہے۔ اس ایک کلپ میں پوری ایک قوم کی تقدیر ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے ۔بات کا مغز اور مقصد یہ ہے کہ میڈیا کا غلط استعمال کس قدر خطرناک ثابت ہوتا ہے اس کا اندازا آپ اس بات سے لگائیں کے ایک قوم کے ہاتھوں دوسری قوم پر ہوتا ظلم جب لائیو نشر ہورہا ہو گا تو اس سے کیا ہو گا فوری تعصب اور بدامنی کی فضا ء قائم ہو گی ۔کیونکہ ہم دنیا کو اپنی آنکھ سے نہیں بلکہ میڈیا کی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں اور میڈیا اپنی مرضی سے ہماری دنیا بنا رہا ہے ، یہ جدت ہے ٹیکنالوجی کی سمجھ آیا کچھ ؟؟ وجہ جب کچھ کے ہاتھ میں ڈور ہوگی تو کٹھ پتلی انکی مرضی کا ٹھمکا لگائے گی۔
مسلم دنیا کے سیاسی زوال معاشی معاشرتی زوال ذاتی مخالفت کے ساتھ مغربی دنیا کاپروپیگنڈبھی ہے۔مسلم دنیا میں اتنے بڑے خلا کی وجہ کیا چیز بنی ؟؟؟ اپنوں سے نفرت اور غیروں سے دوستی اور جنہوں نے اپنوں کو چھوڑ اور غیروں کے سامنے جھکے وہ بھی فسادات کا شکار ہوئے اور جو ان کے سامنے کھڑے ہوئے ان کا حال بھی وہی ہوا۔ اس سیاسی کھیل میں نقصان اسلام اور مسلمانوں کا ہوا کیونکہ اس جدید دور میں برائے نام مسلمان حکمرانوں نے اللہ سے ڈرنے کی بجائے مغربی آقائوں کا ڈر دل میں رکھا اور پھر ان کے ہی ہاتھوں اس دنیا سے رخصت بھی ہو لیئے لیکن اپنا نقصان تو کیا ہی تھا کہ مسلمانوں کو بھی ان حالات میں دھکیل دیا ۔ مسلمانوں کی وہ اکائیاں جس پر مسلمان عوام کا اتحاد ہوتا ہے۔
وہ شخصیات ، لیڈرز، یا وہ تحریکیںیا تنظیمیں جن پر مسلم عوام کا اعتماد ہوتا ہے۔ جن بزرگانِ دین واسلاف کے اقوال ، فعل اور حکمت عملیاں لوگوں کے لیے حرفِ آخر ہوتے ہیں انہیں کے بارے میں شکوک ، شبہات اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عوام اور اسلام پسند طبقے کے درمیان اختلافات کی دیواریں کھڑی کر دی جاتی ہیں ۔ رائی کا پہاڑبنا کر پیش کیا جاتا ہے بشرطِ کسی کو سمجھ لگے کہ یہ رائی ہے بعض اوقات سمجھ اس وقت لگتی ہے جب وقت گزر چکا ہوتا ہے ۔ چھوٹے چھوٹے واقعات کو نمایاں کر کے پیش کیا جاتا ہے اور بڑی باتوں کو نظر انداز ۔ اسلامی شریعت کے خلاف بے بنیاد مفروضے گھڑے جاتے ہیں ، اسلا م کو اس دنیا کا سب سے زیادہ خونخوار مذہب ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ محسنینِ اسلام کا مذاق بنانا میڈیا کے “کارنامے ” ہیں۔ مسلمانوں کے مابین مسئلکی عقائد کو ہوا دی جاتی ہے ۔نسلی ،علاقائی ،صوبائی ، قومی ، لسانی اور قبائلی تعصبات کوفروغ دیا جاتا ہے ۔ میڈیا کے ذریعے دشمنوں کے مقاصدکی برآوری کے لئے اسلام مخالف ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔
مغرب کے میڈیا کی زیادہ تر کمپنیاں اسوقت مسلمان دنیا کا تعارف اپنی عوام سے غلط کروا رہی ہیں اب وہ عوام کیا جانے حقیقت کیا ہے اور کیا ہو رہا ہے کیونکہ انکو جو دکھایا جائے گا وہ وہی سوچیں گے یہ ہے اسلام اور مسلمان ۔ اس کے ساتھ مسلمان دنیا کے کچھ لوگ اپنا پیغام دنیا میں پہنچانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں لیکن یہ مغربی میڈیا کے مقابلے میںصرف جھلکیاں ہیں ۔اسوقت دنیا کا زیادہ تر میڈیا 11ستمبر کے واقعہ کو لے کر کے مسلمانوں کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کر رہا ہے۔
یہ میڈیا ایک ایسا سماں باندھتا ہے جس میں اسلام ، بنیاد پرست، دہشت گرد، اور انتہاپسند نظر آتا ہے ۔جدید دنیا میں میڈیا ریاست کا ایک بنیادی ستون ہے ۔ اور اس طرح سے حقیقی مواد کو چھپانا ایسا ہی آسان ہے ،جیسے۔۔۔۔میڈیا اس وقت مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے اوریہ کہ مسلمان مغرب کی سیکیورٹی کے لئے خطرہ ہیںاور اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہے ، تائیدی دلائل میں افغانستان کی جنگ، عراق کی جنگ اب شام کی جنگ کو پیش کرتا ہے ۔ “ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری بھی” اور اصطلاح استعمال کرتا ہے “Islamophobia” کی۔
مثلاََ ، جب کبھی بھی کسی اسلامی ریاست پر حملہ کیا جائے گا اس سے پہلے ایک اسٹیج سیٹ کیا جائے گا ۔ کسی ایک واقعہ کو موضوع بحث بنایا جائے گا جیسے ۔ 9,11 کو بنایا گیا تھا ۔ اس طرح سے اس ملک کے اندر اپنی فوج داخل کی جائے گی اور وہاں پر لوگوں کا قتل عام کیا جائے گا ۔ جب تک تو وہاں کے لوگ مرتے رہے گیں میڈیا ہمیں کچھ بھی نہیں دکھائے گا وہاں کیا ہو رہا ہے لیکن جب مختلف اسلامی ریاستوں کی آواز اس کے خلاف اٹھے گی تو میڈیا بتائے گا کہ فلاں دہشت گرد مطلوب تھا جو اس ملک میں بیٹھا تھا اس کے لئے یہ بڑا آپریشن کیا گیا ہے ۔ صفائی یہ دی جائے گی یہ سب دنیا کے امن کے لئے کیا جا رہا ہے۔ اسکے برعکس جب اس ریاست میں داخلی قوتوں کو دھکیلنے کے لئے لوگ اکٹھے ہوں گے تو یہ دکھایا جائے گا کہ جو دہشت گرد مطلوب تھا اس کے سایہ تلے وہاں پر ایک دہشت گروپ وجود میں آگیا ہے اس لئے دوسری اتحادی طاقتوں کو اکٹھا کیا جائے گا ان دہشت گروں کے خلاف جنگ کے لئے ۔ یہ سب میڈیا آپکو دکھا رہا ہوگا اور کہا جائے گا کہ وہاں سے اب دہشت گرد دنیا بھر کے لئے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں اس لئے ان کے صفایہ تک جنگ جاری رہے گی اوردنیا اس سے معزوز ہورہی ہو گی۔
معصوم لوگوں کا قتل عام بھی ہو رہا ہو گا اور ساتھ انکو دہشت گرد بھی کہا جا رہا ہو گا ۔ آبادکاروں کی رہائش گاہ کو جدید اسلحہ سے راکھ کے ڈھیروں میں بدلا بھی جا رہا ہو گا اور آپکو یہ کاروائیاں دہشت گردوں کی جانب سے بتائی جا رہی ہوں گی اور آپ اس پر آنکھیں بند کر کے یقین بھی کرتے جا رہے ہوں گے ۔ پھر ایسا ہو گا اس مسلم ریاست کے لوگوں کی جب کوئی بھی خبر نہیں لے گا تو ان سے جو بن پڑے گا وہ کریں گے ۔انسانی سوچ کے تقاضوں کے مطابق جب جبر اور ظلم حد سے بڑھ جائے تو شدت پسندی جنم لیتی ہے ۔جب کچھ بن نہ پڑے تو بلی بھی اپنے اور اپنے بچوں کے دفاع کے لئے کتے پر حملہ کر دیتی ہے۔
مسلم دنیا کے کچھ ممالک اور کچھ مسلم تنظیموں نے اس بات کو اہمیت دی ہے کہ ذرائع ابلاغ پر کام کرنا ضروری ہے ۔اور موجودہ حالات کو سمجھتے ہوئے کچھ حد تک ، عرب ممالک اور ترکی کی اس میدان میں دوسرے مسلم ممالک کی نسبت کارکردگی قدے بہتر اور موثرہے لیکن اتنا کافی نہیں آٹے میں نمک والی بات ہے ۔مذہبی ریسرچ سینٹرز اور تنظیمیں اپنے بل بوتے پر انٹر نیٹ کی دنیا میں کافی حد تک کامیاب ہیں اور احسن طریقے سے اسلام کا پیغام دنیا تک پہنچا رہی ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک بڑا پلیٹ فارم ہونا چاہئے اور مسلم ریاستوں کو جدید دور کے مطابق ایسی حکمت عملی تیار کرنی چاہئے جس سے اہل اسلام کی حقیقی زندگی سے لوگ باخبر ہوں اور اسلام کی حقیقت سے بھی آشنا ہوں ۔ ہر کسی کو اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا حق ہے ۔نا کہ اسکا اختیار کچھ لوگوں کے پاس ہو اور ہم انہی کی سوچ کے غلام رہیں۔
تحریر : رانا ابرار