counter easy hit

انٹرنیشنل میڈیا، سوشل میڈیا(حصہ اول)

Media

Media

تحریر:رانا ابرار
انسان کی ذہنی نشونما کے لئے نقصان دہ ہے یا فائدہ مند ؟۔
معنوی اعتبار سے دیکھا جائے تو میڈیا کو ہم رابطہ، واسطہ ، ذرائع ابلاغ وغیرہ کہہ سکتے ہیں،پیغام رسانی کی ایک سے دوسری جگہ نقل وحرکت۔ اس میں ریڈیو ، پریس (اخبارومیگزین)، پرنٹ (مختلف قسم کی کتابیں )، ٹیلی ویژن، فلم سینما، انٹرنیٹ وغیرہ شامل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ریاست کا چھوتھا ستون کہلاتا ہے۔ اسکا تھوڑا ساتاریخی پسِ منظریہ ہے۔ چودھویں صدی میں چائنہ میں پرنٹنگ پریس کی ترقی ہوئی اور یورپ تک چھا گئی، پہلا اخبار سولہویں صدی میں پرنٹ ہوا اور پہلا میگزین ستارویں صدی میں ، اٹھارویں صدی میں پہلی بار فوٹوگرافی کی تخلیق ہوئی ٹیلیفون ایجاد ہو ا سینما گھر بنا۔

١نسویں صدی کمپیوٹر کے دورکا آغاز ہے اور وڈیو،سیٹلائٹ ،ٹیلی ویژن وغیرہ۔ میڈیا خبر رسانی کا بنیادی سورس ہے۔ لیکن اصل بات یا سوال یہ ہے کہ کیامیڈیا اپنی ذمہ داری اورڈیوٹی احسن طریقے سے سر انجام دیتا ہے ؟ کیا یہ صرف حقائق کو عوام تک پہنچاتا ہے ؟ کیا یہ کچھ مخصوص سازش کاروں کاذریعہ استعمال تو نہیں؟ کیا یہ کسی کا آلہ کار تو نہیں ؟ کیا یہ سچائی کی زبان بولتا ہے یا پیسے کی زبان؟ کیا یہ محنت ریٹنگ کے لئے کرتا ہے یافلاح انسانیت کے لئے ؟ کیا یہ پروپیگنڈہ پر بنیاد کرنے والے مواد کا ذریعہ نشر تو نہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو کیوں ہے کیا وجہ ہے کون لوگ ہیں جو اسکو اپنے اغراض و مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں اور کیوں کر رہے ہیں ؟ عام عوام الناس پر اس کے کیا اثرات ہیں۔

یہ وہ سوالات ہیں جو ہر عام شخص کے دماغ میں گردش کرتے ہیں ۔ اب موجودہ دورمیں سب سے زیادہ اخراجات کسی چیز کی تشہیر کے لئے کئے جا رہے ہیں ، اور آج کے انسان کو میڈیا کے اس چکر میں الجھا دیا گیا ہے اور اسکا اسکی ذاتی اور معاشرتی زندگی میں اس حد تک عمل دخل ہے کہ وہ اس کے بغیر خود کو نامکمل تصور کرتا ہے ۔موجودہ دور میںانسان کو آنکھوں دیکھے واقعہ کو بھی ٹی وی چینل کی آنکھ سے دیکھنے کی عادت ڈال دی گئی وجہ پسند دیدگی۔۔۔۔! اس میں سنسنی خیز مواد،طنز اور کبھی گلیمر وغیرہ ڈال اسکو مزید دلچسپ بنا دیا جاتا ہے، فلاں چینل اس بارے میں کیا کہہ رہا ہے اور دوسرا کیا کہہ رہا ہے اس خبر میں کیا تضاد ہے اور اس کو مرچ مصالحہ کس نے کس طرح سے لگایا ہے۔

پرنٹ میڈیا کی بات کی جائے تو ایک ہی واقعہ یا معاملہ کے بارے میں جب آپ مختلف قسم کے اخبارات اٹھائیں تو آپ کو مختلف قسم کے اور رنگ برنگے لطیفے پڑھنے کو ملیں گے، وجہ کیاہے صرف ریٹنگ کے لئے تا کہ ہماری خبر اس سے بہتر ہو اس طرح سے حقائق کو مسخ کرکے سنجیدہ معاملات کو بھی طنزیہ انداز سے پیش کر کے کبھی مزاحیہ اور کبھی شدت آمیزبنا دیا جاتا ہے۔ میڈیا نے ان چیزوں سے لطف اندوز ہونے کی عادت ڈال کرآج کے انسان کو اپنا مطیع کر لیا ہے ۔ اس کے پیچھے تخریب کا ر عناصر ، اور مجرمانہ ذہن رکھنے والے اشخاص کس طرح سے اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کر رہے ہیں اس بارے میں کوئی سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا اور میڈیا کی اندھی تقلید کرتا ہے ۔

“آزاد میڈیا” ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، لیکن کیا میڈیا آزاد ہے ؟اگر آزاد ہے تو کونسا پہلو آزاد ہے ؟ اس آزادی کا فائدہ کس کو ہے ؟ ۔
میڈیاخبررسانی ایک کاروبار ہے، اور اس کاروبار کو پیسے کے لئے کیا جاتا ہے۔یہ کوئی پبلک سروس نہیں کہ عوام کو بتایا جائے دنیا میں کیا ہونے جا رہا ہے، یہ ایک طرح سے مارکیٹنگ ہے اور اپنی مرضی کے نظریات کو فروغ دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے، اصل اور حقیقی دنیاسے لا تعلق ہے ، اوراس طرح کام نہیں کر رہا جس طرح کہ ایک منصفانہ نظام انصاف کے حصول یا فراہمی کے لئے کام کرتا ہے۔

موجودہ دور میںکچھ لوگ جو مجرمانہ ذہنیت رکھتے ہیں ۔ یہ لوگ زیادہ سوچتے ہیں اور مناسب کام کرتے ہیں ، برعکس اس کے کثیر لوگ زیادہ کام کرتے ہیں اور کم سوچتے ہیں ، اسی وجہ سے یہ کم لوگ اکثریت سے دوقدم آگے ہوتے ہیں، تیز اور چالاک ہوتے ہیں ۔ اوراس طرح کے لوگ اپنے فائدے کے لئے شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہیں اوراس کھیل میں سب سے بڑے واسطے کا انتخاب کر چکے ہیں، اور انکا کھیل سازش اور پروپیگنڈہ ہے ۔ یہ آج کے انسان کی سوچ پر غالب آنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔تا کہ نواجوان نسل کو اپنی مرضی کے مطابق تربیت دی جائے ۔ میرے خیال سے 1000لوگوں کو مارنے سے بہتر ہے ایک شخص کی سوچ بدل دی جائے۔
انٹرنیشنل میڈیا کی بات کی جائے تو سب سے اہم یورپ اور امریکہ ہے ۔دنیا کے حالات کا دھارا بدلنے میں ٹی وی ، ریڈیو اور اخبارات کے کارکنوں کا انتہائی اہم کردار ہوتاہے ۔گو کہ انٹرنیٹ پر مخصوص لوگوں کی اجارہ داری نہیں ہے۔اسوقت دنیا کا 97فی صد میڈیا کچھ مخصوس لوگوں کے کنٹرول میں ہے اور اس پر ان چند لوگوں کی اجارہ داری قائم ہے ۔

“Harold Wallace Rosenthal” نے1976 میں ایک انٹرویو دیا:-
ہم نے اس(میڈیا) پر ایسا کنٹرول حاصل کر لیا ہے جیسا اور کوئی نہیں کر سکا۔کوئی بھی شخص یا لوگ اس جگہ نہیں پہنچ سکتے ، جس جگہ ہم میڈیا کو کنٹرول کر کے پہنچ گئے ہیں۔ بیسویں صدی میں ماس میڈیا کا کنٹرول کس کے پاس ہے؟ ۔چئیر مین آف ABC” پی پی Leonard Goldenson” ” پریزیڈنٹ آف CBS” ،James H. Rosenfield ، چیئر مین آف RCS” ” David Sarnoff، چیف ایگزیکٹو آف NBC” Fred Silverman”، پریزیڈنٹ آف PBS” Lawrence Grossman” ، چیئر مین آف ٹائم Arthur Heiskell”، ایڈیٹر آف “یوا-ایس رپورٹ اینڈ ورلڈ نیوز “Marvin Stone” ، چیف ایگزیکٹو آف Dow Jones” ”
Warren H. Phillips ، ایڈیٹر آف “نیوز ویک ” Lester Bernstein، پریزیڈنٹ آف “ٹی وی گائڈ ” Walter Annenberg، پریزیڈنٹ آف” نیو یارک ٹائمز” Sulzberger family ، یہ سب یہودیوں کا ہے ۔انٹرنیشنل میڈیا پر کچھ لوگ قابض ہیں۔

Rana Abrar

Rana Abrar

تحریر:رانا ابرار