تحریر: ممتاز حیدر
بھارتی پالیمنٹ پر مبینہ حملے کے جرم میں سزائے موت پانے والے افضل گورو کے بیٹے غالب گورو نے میٹرک کلاس میں 95 فیصد نمبر حاصل کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔فروری 2013 میں تختہ دار پر جھولنے والے افضل گورو کی پھانسی کے بعد سے اس کے خاندان کو شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑا لیکن اس کے بیٹے غالب گورو نے میٹرک میں 95 فیصد نمبر حاصل کئے تو سوشل میڈیا پراس کا خوب چرچا ہونے لگا جب کہ سوشل میڈیا صارفین اسے بھارت سے باپ کے قتل کا بدلہ قرار دے رہے ہیں۔ غالب گورو نے میٹرک کے تمام 5 مضامین میں اے ون گریڈ حاصل کرتے ہوئے کل 500 نمبرز میں سے 474 نمبر حاصل کرکے بورڈ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔گزشتہ کئی سالوں سے مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلواما کے میٹرک بورڈ میں ہرسال لڑکیاں ہی ٹاپ پوزیشن لینے میں کامیاب ہوتی تھیں لیکن اس سال غالب گورو نے 95 فیصد تک نمبر حاصل کرکے نا صرف سب کو حیران کردیا بلکہ انہوں نے ثابت کیا کہ وہ باپ کی شفقت سے محرومی کے باوجود اب بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔غالب گورونے سوپور میں واقع اپنی رہائشگاہ میں صحافیوں سے گفتگو میں تین سال قبل اْن کے والد کو پھانسی دیئے جانے تک بھی اْنھیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ آخر میرے والد کا جرم کیا تھا۔ 13 سال تک مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ میرے ابو آخر جیل میں کیوں ہیں، بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے وقت غالب گرو صرف دس ماہ کا تھا کا کہنا ہے کہ کہ میرے والد کے خلاف الزامات صحیح ہوں یا غلط لیکن یہ میرے دل و دماغ میں آگ لگا دیتے ہیں۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ جنھوں نے یہ حملہ کیا تھا وہ سب ہلاک ہوگئے ، پھر میرے والد کس طرح زندہ بچے ؟ اور وہ کس طرح ملوث ہوسکتے ہیں؟ اْن کے والد نے اْسے مصائب اور اْلجھن کے حالات کا سامنا کرنا سکھایا ہے۔ وہ اکثر مجھے دعائوں کی تلقین کیا کرتے اور آج یہی میرا سہارا ہے۔ مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں غالب نے کہاکہ اْن کی ماں جو تنہا اْن کی پرورش کررہی ہیں چاہتی ہیں کہ وہ ایک ڈاکٹر بنے لیکن اْن کے والد کی خواہش تھی کہ وہ اسلامک اسکالر بنیں۔غالب افضل نے کہا ”میں نے ٹیوشن کا آدھا کورس ہی مکمل کیا تھا لیکن پھر بھی مجھے یقین تھا کہ میں 470 سے 475 نمبر حاصل کروں گا”۔میری خواہش ہے میں ڈاکٹر بنوں اور پھر مظلوم اور غریب لوگوں کا علاج کروں”۔میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد میرے حوصلے اور بھی بلند ہوگئے ہیں اور میں اب بہت جلد ”ایم بی بی ایس” کے لئے تیاری بھی شروع کروں گا”۔ غالب کی والدہ تبسم نے کہاکہ اْن کا تعلق ایک معمولی گھرانے سے ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ اْن کا بیٹا بھی ایک سیدھی سادھی زندگی گذارے ، سیاست سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ غالب کے پاس ہونے کی مبارک پوری کشمیر قوم کی ہے، جس نے میرے بیٹے کی حوصلہ افزئی کی۔ لوگوں کا پیار اور محبت آج بھی انہیں مل رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ریاست بھر سے انہیں غالب کے پاس ہونے کی مبارکباد دی جا رہی ہے۔ شبنم گورو نے جذباتی انداز میں کہا ”غالب کو اگر اپنے والد کا نام روشن کرنا ہے تو اْسے اسی طرح آگے بھی محنت کرنی پڑے گی، تاکہ ہر کوئی یہ فخر سے کہہ سکے کہ وہ محمد افضل گورو کا بیٹا غالب اپنے باپ کا نام روشن کر گیا اور اس کی کامیابی سے اْس کے والد کی روح کو بھی تسکین ملے گی۔
غالب گرو کا یہ بھی کہنا ہے کہ جیل میں اْن کے والد نے قرآن مجید کا نسخہ اور سائنس کی کتابیں بطور تحفہ دیں تھیں جنھیں اْنھوں نے محفوظ رکھا ہے۔جس قوم میں شہید افضل گورو جیسے جیالے تختہ دار کو خوشی خوشی چوم لیں اس قوم کو بندوق اور ظاقت کے بل پر خریدنا ، زیر کرنا یا غلام بنانا ممکن نہیں۔1947سے وقتا فوقتا کشمیری قوم پر متعدد مواقع پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، کشمیریوں کی مبنی برحق جدوجہد کو دبانے کے لئے سامراجی اور آمریت پر مبنی حربے آزمائے گئے۔9 فروری 2013کو رات کے اندھیرے میں تمام مسلمہ انسانی اقدار ، عدل و انصاف کے تقاضوں اور انسانی جذبوں اور رشتوں کو بڑی بے دردی سے پامال کرکے جس طرح ایک کشمیری سپوت محمد افضل گورو کو تختہ دار پر لٹکایا گیا اس سے بھارت کے ارباب اقتدار نے دنیا کو یہی پیغام دیا کہ وہ طاقت کے بل پر کچھ بھی کر گزرنے سے دریغ نہیں کرسکتی اور اس انسانیت سوز واقعہ سے بھارتی عدلیہ انصاف اور جمہوریت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے عیاں ہو گیا۔ بھارت ظلم و جبر کی پالیسی ، قدغنیں، گرفتاریاں، نظر بندیاں اور مظلوم کشمیریوں کو تختہ دار پر لٹکانے کے غیر جمہوری اور نا انصافیوں پر مبنی حربوں سے کشمیری عوام کو مغلوب نہیں کرسکتا۔ کشمیری قوم اپنے اوپر ڈھائے جا رہے مظالم کو کبھی بھول نہیں پائیگی۔
لاکھوں کشمیریوں نے اپنی جانوں کا بازی لگاکر مادر وطن کی آزادی کیلئے قربانیاں دی ہیںلیکن اس فہرست میں فرزند کشمیر محمد افضل گورو کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ9 فروری 2013 کے روز انہیں تختہ دار پر لٹکایا گیا ان کی جسد خاکی کو بھی بھارتی حکمرانوں نے واپس کرنے اور انہیں شایان شان طریقے پرتجہیز و تکفین سے محروم رکھنے کا مذموم کھیل کھیلا۔کشمیری رہنما افضل گورو کی پھانسی بھارت میں ظالمانہ عدالتی قتل ہے، گواہوں کی عدم دستیابی کے باوجود افضل گورو شہید کو ٹرائل کیا گیا اور ایسے جرم میں سزا دی گئی جس سے ا سکا کوئی تعلق نہیں تھا۔ پھانسی،بھارتی جمہوریت اور نام نہاد سیکولرازم کے منہ پر طمانچہ ہے۔ تختہ دار کو چومنے والے فرزند کشمیر محمدافضل گورو نے بھی قوم کشمیراور دوسرے لاکھوں شہداء ہی ہمارے اصل ہیرو ہیں۔ تحریک آزادی کے جیالوں کو یاد رکھنا زندہ اقوام کا شیوہ ہے۔شہید کشمیر محمد مقبول بٹ کی پھانسی کے 29 سال بعد ایک اور کشمیری نوجوان محمد افضل گرو کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کی سازش کے الزام میں تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی۔ بھارتی صدر پرنب مکھرجی کی طرف سے رحم کی اپیل مسترد ہونے پر افضل گورو کو ہفتے کی صبح پانچ بجکر پچیس منٹ پر پھانسی دیدی گئی۔ افضل گورو کو پھانسی انصاف کا قتل ہے۔
تحریک آزادی کشمیر میں حصہ لینے والوں کو گرفتار کر کے عمر قید کی سزائیں سنانا اور پھانسی کے پھندے پر لٹکانا بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے، پوری کشمیری و پاکستانی قوم افضل گورو سے محبت اور ان کا احترام کرتی ہے انہیں پھانسی کے پھندے پر لٹکانا پوری کشمیری قوم پر حملہ ہے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی جاری ہے اور جاری رہے گی۔ بھارتی عدلیہ کشمیریوں کے معاملے میں انتہائی جانبداری سے کام لے رہی ہے کشمیریوں کے حق میں اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ افضل گورو کوئی جرائم پیشہ شخص نہیں بلکہ وہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کا ایک زبردست ہیرو ہے جس نے اپنے قومی کاز کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ افضل گورو کی پھانسی سے مذموم اقدامات سے تحریک آزادی جموں کشمیر کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔بھارتی عدلیہ کشمیریوں کے معاملہ میں انتہائی جانبداری سے کام لے رہی ہے۔
کشمیریوں کے حق میں اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔پوری کشمیری وپاکستانی قوم افضل گورو سے محبت اور ان کا احترام کرتی ہے۔حریت کانفرنس(ع) مقبوضہ کشمیر نے مقبول بٹ اور افضل گورو کے جسد خاکی ان کے لواحقین کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے اس سلسلہ میں دستخطی مہم کا آغاز کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس طرح پاکستانی حکومت نے بھارتی قیدی سربجیت سنگھ کی لاش کو بھارتی حکومت اور ان کے لواحقین کے حوالے کیا اسی طرح محمدمقبول بٹ اور محمد افضل گورو کے جسد خاکی کو بھی کشمیر ی قوم کو واپس کیاجائے۔ دونوں کشمیری عوام کے عظیم قائد تھے جنہوں نے و کشمیری عوام کی آزادی کے خاطر سرجھکانے کے بجائے شہادت کو ترجیح دی۔ ان کی قربانیوں کی حفاظت کرنا ہم سب کا اولین فرض ہے۔
تحریر:ممتاز حیدر
برائے رابطہ:03349755107