تحریر: فہد چوہدری
انٹر نیشنل مونیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) ایک ایسا ادارہ جو 1945 ء میں دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد قائم کیا گیا جس کا اہم مقصد اس وقت کے تباہ شدہ معشیت والے ممالک کو دوبارہ سے اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کیلئے فنڈز فراہم کرنا تھا ۔ دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد ویسے تو بہت سارے ادارے بنائے گئے جن میں آئی ایم ایف بھی ایک تھا۔ اس کے علاوہ دیگربڑے اداروں میں ورلڈ بینک ، یونائیٹڈ نیشن اور انٹرنیشنل پوسٹ یونین شامل تھے ۔ آئی ایم ایف کا اہم مشن بین الاقوامی معاشی نظام کو سہارا دینا تھا ۔ اس وقت دنیا کے 188 ممالک آئی ایم ایف کے ممبران ہیں ۔ آئی ایم ایف کے تین بڑے مقاصد میں ایک توپوری دنیا کی معشیت پر نظررکھنا بالخصوص اپنے ممبران کی معشیت پر گہری نظر رکھنا ۔ دوسرا یہ کہ جن ممالک کو بیلنس آف پیمنٹ میں خسارے کا سامنا ہو انہیں قرضہ جات فراہم کرنا اور تیسرا اہم مقصد یہ کہ ممبر ممالک کو عملی طور پر مدد فراہم کرنا ہے ۔ دراصل عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف صرف اور صرف پاکستان کو ڈوویلپمنٹ کے لئے قرضہ دیتا ہے لیکن آئی ایم ایف ہر گز اسیے کام کے لئے قرضہ نہیں دیتا ان مقاصد کے لئے ورلڈ بینک اور ڈوویلپمنٹ بینک قرضہ دیتے ہیں ۔
اب اگر آئی ایم ایف اور پاکستان کے رشتے سے متعلق بات کریں تو تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے پہلا قرضہ ایوب خان کے دور میں لیا حالانکہ یہ اس دور کی بات ہے جب لوگوں کی اکثریت سادہ لوح تھے اور ان کی ضروریات ِ ذندگی بھی محدود ہوا کرتی تھیں ۔ اس دور میں ایوب خان کی گورنمنٹ نے تین مرتبہ آئی ایم سے قرضہ لیا ۔ جو کہ دراصل محدود مدت کے قرضے تھے ۔80 اسی کی دہائی سے پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرضے لینے اور نہ رکنے والا سلسلہ شروع کیا ۔ 1988ء میں آ ئی ایم ایف سے پہلا معاہدہ طے پایا اور تب سے آج تک آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان 12098 ملین کے قرضے لے چکا ہے ۔ 1989ء سے مشرف دور 2007ء تک پاکستان نے 3625ء ملین ڈالر کا قرضہ لیا ۔ زرداری دور ِ حکومت میں 5233 ملین ڈالر کا قرضہ لیا گیا جو کہ پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک کے ہمارے کل قرضوں سے زیادہ رقم ہے ۔ موجودہ گورنمنٹ کے قرضوں کی رقم اڑھائی سال کے عرصے میں 3240ملین ڈالر بنتی ہے جو کہ ابھی تک زرداری گورنمنٹ کے قرضوں کی رقم سے کم ہے ۔ اگر آپ غور کریں تو 1989ء سے اب تک کے سالوں میں مہنگائی کی شرح میں بے حد اضافہ ہوا ۔ دراصل 1991ء میں روس کے ٹوٹنے کے بعد بہت سے ممالک 90ء کی دھائی میں معاشی بدحالی کا شکار ہوئے جن میں سے ایک ہمارا ملک بھی ہے ۔ 1997ء میں ایشیا میں فنانشل کرائسس کا آغاز ہوا اس دور میں تین ممالک تھائی لینڈ ، ملائشیااور انڈونیشیا جو کہ ایشین ٹائیگر کہلاتے تھے ان کی کمر ٹوٹ گئی ۔ بعدا ز تھائی لینڈ اور انڈونیشیا نے آئی ایم ایف کی مدد حاصل کی اوربحران سے نکل گئے ۔ جبکہ مہانیر محمد جو کہ ملائیشیا کا صدر تھا اس نے آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو دیکھتے ہوئے قرضہ لینے سے صاف انکار کر دیا ۔
یوں ملائیشیا کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہونے لگا انہوں نے اپنی معشیت کو خود سہارا دیا حالانکہ آج بھی تھائی لینڈ اور انڈونیشیا وہ مقام حاصل نہ کر سکے جو کہ ان کے پاس 1997ء میں تھا۔ اس پوری کہانی کا مقصد یہ تھا کہ آپکو آئی ایم ایف اور پاکستان کے قرضوں سے آگاہی دی جائے ۔ آئی ایم ایف جو کہ بیلنس آف پیمنٹ کرائسس کے بدلے قرضہ دیتاہے اس سے قرضہ لینے کی بجائے اگر ہم تھوڑی توجہ فورن ڈائیریکٹ انویسٹمنٹ ( ایف ڈی آئی ) پر کر دیں تو ہمارا بیلنس آف پے منٹ میں خسارے کا مسئلہ آسانی سے حل ہو سکتاہے ۔ لیکن اس کے لئے سب سے پہلے یہ بتانا مقصود ہے کہ ایف ڈی آئی ہوتی کیاہے ۔
یہ دراصل دوسرے ممالک کی اپنے ملک میں سرمایہ کاری یا کسی ترقی یافتہ ملک کی کسی ترقی پذیر ملک میں سرمایہ کاری کو کہتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اگر ایک ترقی پذیر ملک پاکستان ہی لے لیں جو کہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے صرف سرمایہ کاری کی وجہ سے قدرتی وسائل کو استعمال میں نہ لا سکے تو وہاں دیگر ترقی یافتہ ممالک سرمایہ کاری کرتے ہوئے ان وسائل کو استعمال میں لاکر فنشڈ پراڈکٹ کے طور پر اپنے ملک میں درآمد یا پھر دوسرے ممالک میں برآمد کرتے ہیں تو اس سارے عمل کو فارن ڈائیریکٹ انویسٹمنٹ ( ایف ڈی آئی ) کہا جاتاہے ۔ اس کے بہت سے فائدے ہیں جیسے کہ ترقی پذیر ملکوں کی عوام کو روزگار ملتاہے ۔
ڈالرز کی صورت میں پاکستان میں سرمایہ آتاہے جو کہ بیلنس آف پے منٹ کے مقارے کو پورا کرنے کا ایک بہترین حل ہے ۔ اس کے علاوہ جب بھی بیرونی سرمایہ کاری ہوتی ہے تو اس سے ٹیکسوں کی مد میں حکومتی خزانے میںآمدن آتی ہے ۔ پھر ہمارے ملک میں بننے والی اشیاء جب برآمد کی جاتی ہیں تو دنیا ہمارے ملک میں بننے والی چیزوں سے متعارف ہوتی ہے ۔ اور اس سے ڈالرز کی شکل میں آمدن آتی ہے اس آمدنی کی صورت میں بیلنس آف پیمنٹ کا خسارہ کم ہوتا ہے ۔ اب آتے ہیں اصل مسئلے کی طرف تو ہمارے ملک میں 1980ء سے آج تک ہمارے ملک میں ایف ڈی آئی کی ویلیو 34591 ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے حالانکہ حکومت ِ پاکستان نے مختلف ادوارمیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کی مد میں 1980 ء سے 2013ء تک 236176 ملین ڈالر کے قرضے لے چکی ہے ۔
اگر حکومت ِ پاکستان اس طرف تھوڑی سی توجہ دے تو ہم ایف ڈی آئی کو بڑھا کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے چنگھل سے خود کو آزاد کروا سکتے ہیں ۔ یہاں صرف حکومت پر تنقید کرنا نہیں بلکہ یہ باور کروانا ہے کہ ملک کبھی قرضوں تلے دب کر کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا اس کے لئے ہمیں خود اعتمادی کے ساتھ کچھ عملی اقدام اٹھانا ہوں گے ۔ اس میں سب سے پہلے تو ملک کو حکومتی خزانے کو دو دو ہاتھوں سے لوٹنے والے حکمرانوں سے آزاد کروانا ہوگا ۔ میرٹ اور احتساب کے عمل کو یقینی بنانا ہوگا اور اس کے علاوہ ہمارے ملک میں پرانے معشیت دانوں کی ناکارہ پالیسیاں ان کے دماغوں کی طرح بوسیدہ ہو چکی ہیں لہذا ملک کے باشعور نوجوان معیشیت دانوں کو بھی ایک موقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔ یقین کیا جاتا ہے کہ ایسا کرنے سے ضرور ملک میں بہتری آئے گی ۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ پاکستان زندہ باد
تحریر: فہد چوہدری