الریاض (وقار نسیم وامق) حلقہء فکروفن کے زیراہتمام کراچی سے تشریف لانے والی بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعرہ اور کالم نگار ریحانہ روحی کے اعزاز میں ایک شاندار محفلِ مشاعرہ ریاض کے مقامی ریستوران میں منعقد ہوا، مشاعرے کو حالیہ سانحہء لاہور سے منسوب کیا گیا تھا ، مشاعرے کی صدارت کمرشل اتاشی سفارت خانہ پاکستان وسیم حیات باجوہ نے کی جبکہ نظامت حلقہء فکروفن کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل حناء امبرین طارق نے خوش اسلوبی سے سرانجام دئیے،مشاعرے میں شائقینِ شعر و عمائدینِ شہرخواتین و حضرات نے بھرپورشرکت کی۔
ڈاکٹر محمود احمد باجوہ کی تلاوتِ قرآن پاک سے تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا جبکہ ہدیہء نعت ڈاکٹر سعید احمد وینس نے پیش کیا، حلقہء فکروفن کے سنیئر رکن امین تاجر نے ریحانہ روحی اور وسیم باجوہ کو بالترتیب گلدستے پیش کئے جبکہ انڈس فورم کے سیکرٹری جنرل ذیشان قاضی نے ریحانہ روحی کو روایتی سندھی اجرک کا تحفہ پیش کیا۔
حلقہء فکروفن کے سیکرٹری جنرل وقار نسیم وامق ؔ نے ابتدائیہ پیش کرتے ہوئے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اورریحانہ کا تعار ف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ریحانہ روحی شعر و ادب میں ایک اہم اور معتبر نام ہے، انہوں نے منطقہ شرقیہ میں نخلستانِ ادب کے پلیٹ فارم سے شعر و ادب کی ترویج و ترقی کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کیا اور ان کا گھر شعر و ادب کا مرکز تھا، مملکت میں طویل عرصہ قیام کے بعد کم و بیش پندرہ سال قبل کراچی میں سکونت اختیار کی اور ملکوں ملکوں عالمی مشاعروں میں شریک ہونے لگیں،کسی بھی مشاعرے میں ان کی شرکت مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔
ناظمِ اعلیٰ حلقہء فکروفن اور معروف قلمکار جاوید اختر جاوید نے خطبہء استقبالیہ پیش کیا اور ریحانہ روحی کے فکروفن پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ ریحانہ کی شاعری میں نسوانی حسیت کی بازگشت مختلف رنگوں میں دیکھی جاسکتی ہے ، وہ جذبے کی روانی اور خیال کی تابانی کو اپنے شعروں میں پیش کرنے کا ہنر جانتی ہے، وہ اپنی بات بنا خوف ڈر کے بیان کرتی ہے، ان کی شاعری زندگی کی سچائیوں اورحقائق کی آئینہ دار ہے، ریحانہ روحی کی شاعری دلنشیں خیالوں کی راگنی اور خوش نما لفظوں کی مصوری ہے، اس موقع پر جاوید اختر جاوید نے ریحانہ روحی کو منظوم خراجِ تحسین بھی پیش کیا۔
مشاعرے کی ناظمہ ڈاکٹر حناء امبرین نے مشاعرے کا آغاز کرتے ہوئے سب سے پہلے ریحانہ روحی کو دعوتِ سخن دی ، ریحانہ روحی نے یکے بعد دیگرے اپنی کئی مشہور غزلیں اور نظمیں سنا ئیں اور خوب داد سمیٹی، اس موقع پر ریحانہ نے منطقہ شرقیہ میں اپنے قیام، نخلستانِ ادب اور حلقہء فکروفن سے وابستہ اپنی یادوں کو ترو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ مملکت میں گزرے لمحے ان کا قیمتی اثاثہ ہیں یہاں جاوید اختر جاوید سمیت کئی ادبی دوستوں کا ساتھ رہا جن کی خوبصورت یادیں ذہن و دل کو معطر رکھتی ہیں، انہوں نے حلقہء فکروفن اور ان کے جملہ اراکین کی شعر و ادب کے لئے کی جانیوالی کاوشوں کو سراہتے ہوئے ان کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار بھی کیا،ریحانہ روحی کو مشاعرے کے آغاز اور اختتام سے قبل دو بار دعوتِ سخن دی گئی اور دونوں مرتبہ ان کے پیش کردہ کلام کو شائقین نے بھرپور توجہ اور پذیرائی سے نوازا۔
مشاعرے میں شریک شعرائے فکروفن میں عبدالرزاق تبسم، عاطف چوہدری، سلیم کاوش، حناء امبرین، وقار نسیم وامق، جاوید اختر جاویداور ریحانہ روحی شامل تھے جن کے کلامِ دلپذیر سے سامعین خوب محظوظ ہوئے، انتخاب پیشِ خدمت ہے،
عبدالرزق تبسمؔ : کھو کرخیالِ یار میں غزل کہہ گیا کوئی
بے لوث تیرے پیار میں غزل کہہ گیا کوئی
حسنِ جمالِ یار کا دیکھا جو بانکپن
لطفِ جمالِ یار میں غزل کہہ گیا کوئی
عاطفؔ چوہدری: مسئلہ یہ بھی تو درپیش ہے اس بار مجھے
جس جگہ در تھا نظر آتی ہے دیوار مجھے
خواب ایسا تھا کہ آنکھوں سے سنبھالا نہ گیا
نیند ایسی تھی کہ کرتی رہی مسما ر مجھے
سلیم کاوشؔ : میں اپنے شہر میں برسوں کے بعد آیا تھا
جو میرے ساتھ چلا صرف میرا سایا تھا
مرے نصیب کا ایک بیج بھی نہ اگ پایا
میں اس زمیں پر بڑے مان لے کر آیا تھا
حناءؔ امبرین: وسوسے لاکھ سرِ شام، سرِ بزم سہی
یہ سب دریا بھی سمندر میں اتر جائیں گے
وہ جو بھولا ہے صبح کا وہ شام لوٹے گا
بوڑھی آنکھوں کے رتجگے بھی سنور جائیں گے
وقار نسیم وامقؔ : بنامِ عشق بڑے غم اٹھائے جاتے ہیں
یہ روگ لگتے نہیں ہیں لگائے جاتے ہیں
چلا ہوں ان کی طرف آج ایسی حالت میں
قدم قدم پہ قدم ڈگمگائے جاتے ہیں
جاوید اختر جاویدؔ : پیار کے دیپ جلاؤ تو غزل ہوتی ہے
دل میں کچھ درد جگاؤ تو غزل ہوتی ہے
پھول کلیاں ہوں صبا ہو کہ قوسِ قزاح ہو
رقص میں سب کو جو لاؤ تو غزل ہوتی ہے
ریحانہ روحیؔ : تیری گلی کو چھوڑ کے جانا تو ہے نہیں
دنیا میں کوئی اور ٹھکانہ تو ہے نہیں
جی چاہتا ہے کاش وہمل جائے راہ میں
حالانکہ معجزوں کا زمانہ تو ہے نہیں
اور
آجا کہ وحشتوں کا تلاطم گزر نہ جائے
گہرے سمندروں میں یہ دریا اتر نہ جائے
میں یہ بھی چاہتی ہوں ترا گھر بسا رہے
اور یہ بھی چاہتی ہوں کہ تو اپنے گھر نہ جائے
صدرِ محفل وسیم باجوہ نے محفلِ مشاعرہ کو کامیاب قرار دیتے ہوئے اس کے انعقاد پر دلی مسرت کا اظہار کیا اور مشاعرے میں پیش کئے گئے کلام کے معیار کو سراہا، انہوں نے کہا کہ فکروفن کی محافل کا انعقاد ہوتے رہنا چاہئے تا کہ دیپ سے دیپ جلتا رہے، اس موقع پر انہوں نے سفیرِ پاکستان محترم منظور الحق کی کاوشوں کو بھی سراہا جن کی خصوصی دلچسپی اور سرپرستی سے مملکت میں شعر و ادب اور فنونِ لطیفہ کو فروغ حاصل ہوا۔
حلقہء فکروفن کے ناظم الامور ڈاکٹر طارق عزیز نے اظہارِ تشکر ادا کرتے ہوئے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ’’ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں‘‘ ہمیں تعصب، نفرت اور گھٹن کے ماحول سے نکل کر شعر و ادب کے ذریعے محبت اور رواداری کو فروغ دینا ہے۔ محفلِ مشاعرہ کے اختتام پر شرکائے محفل کے اعزاز میں پرتکلف عشائیہ دیا گیا اور اس کے بعد رات گئے تک غیر رسمی گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔