منگل کی رات سونے سے پہلے میں نے بدھ کی صبح اُٹھ کر جو کالم لکھنا تھا اس کا موضوع طے کردیا تھا یہ کالم لکھنے کے لئے قلم اٹھایا ہی تھا کہ ایک فون آگیا۔ گھنٹی میں نے آف کر رکھی تھی جو نام مگر سکرین پر نمودار ہوا اسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں تھا ہیلو بولتے ہی بدھ کی صبح چھپے کالم پر شدید تنقید بھگتنا پڑی۔
نوم چومسکی کے ذکر سے شروع ہوکر اس کالم کے اختتام تک پہنچتے ہوئے میں نے انتہائی دیانت داری سے اعتراف صرف یہ کیا تھا کہ ہمارے لوگوں کی اکثریت کے دماغوں اور دلوں پر وہ بیانیہ حاوی ہے جسے ان لوگوں نے ترتیب دیا اور پھیلایا ہے جنہیں ہم ”مذہبی انتہاءپسند“ یا ”کالعدم تنظیمیں“وغیرہ کہتے ہیں انتہائی درشتی سے مجھے بتایا گیا کہ جس بیانیے کو میں نے نام نہاد ”کالعدم تنظیموں“سے منسوب کیا ہے وہ درحقیقت جنرل ضیاءکے 11برسوں میں ہماری ریاست نے تشکیل دیا تھا۔ اس کی بنیاد پر ”افغان جہاد“کی بھرپور سرپرستی ہوئی۔ ہماری ریاست آج بھی اس بیانیے کو ترک کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں۔ عمر کے اس حصے میں شاید میں بزدل ہوچکا ہوں۔ پورا سچ لکھنے کی جرا¿ت سے محروم ہوا قوم کو گمراہ کررہا ہوں میں نے اپنی بزدلی کا ہمیشہ اعتراف کیا ہے پنجابی کا ایک محاورہ سمجھاتا ہے کہ آپ کو کم مائیگی کا احساس صرف اس وقت ستانے لگتا ہے جب آپ کے پاس روزمرہّ اخراجات پورے کرنے کے باوجود کچھ رقم بچنا شروع ہوجائے بچی ہوئی یہ رقم بتدریج بڑھتی رہتی ہے اس کی مجموعی تعداد آپ کے ذہن میں ایک عدد کی صورت جم سی جاتی ہے آپ اس عدد کا نیچے گرنا برداشت نہیں کرسکتے مثال کے طورپر آپ کے پاس اگر ایک لاکھ روپے فالتو بڑے ہیں تو آپ اس میں سے پانچ ہزار روپے بھی اس خیال سے خرچ نہیں کریں گے کہ ”رقم ٹوٹ جائے گی“بات لمبی ہوگئی۔ محاورے مگر مختصر ہوتے ہیں چند حرفی اسی لئے مو¿ثر بھی، اصل محاورہ صرف ”جوڑیاتے کٹیا“ہے یعنی،کم تو وہی ہوگا جو جمع ہوا ہوگا“وغیرہ وغیرہ۔
بہرحال میں فطری طور پر بزدل ہوں اور اپنی آمدنی سے جڑی چند راحتوں کا محتاج بھی ہوچکا ہوں یہ محتاجی آپ کو یقیناً لکھتے اور بولتے ہوئے محتاط رہنے پر مجبور کردیتی ہے، عمران خان مگر ہمارے بے تحاشہ لوگوں کو حق و صداقت کے علم بردار نظر آتے ہیں۔ ریاستی جبر کی وہ ہرگز پرواہ نہیں کرتے حکمرانوں کو ”اوئے“ کہہ کر پکارتے ہیں دھرنے وغیرہ دے کر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پریشان کردیتے ہیں۔
عمران خان صاحب نے مگر کراچی میں ایک کینسرہسپتال کی بنیاد رکھنے کے موقع پر جو تقریر کی اس میں ادا کئے چند کلمات کچھ ملاﺅں کو پسند نہ آئے ان میں سے ایک نے ان کلمات کی جو تشریح کی وہ صرف سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کے سامنے آئی۔ عمران خان نے وہ ویڈیو آنے کے چند ہی گھنٹوں بعد ایک تفصیلی بیان کے ذریعے انتہائی خلوص کے ساتھ غیر مشروط معافی مانگ لی۔ اس معافی کو ان کی میڈیا ٹیم نے بڑے اہتمام کے ساتھ پاکستان کے تمام اخبارات کے صفحہ اوّل پر چھپوانے کا بندوبست کیا۔
عمران خان کی سیاست کے بارے میں میرے بے تحاشہ تحفظات ہیں میں ان تحفظات کے اظہار کی وجہ سے ان کے متوالوں سے اکثر ”لفافہ“ ہونے کے طعنے بھی سہتا رہا ہوں۔ سچ مگر یہ بھی ہے کہ کرکٹ کے اس سپرسٹار کا ماضی جو بھی رہا ہو،1990 ءکے آغاز ہی سے ان کی ہمارے دین سے عقیدت راسخ ہونا شروع ہوگئی تھی۔ اس عقیدت کی وجہ سے انہیں ہمارے لبرل لوگوں نے ”طالبان خان“ کہنا شروع کردیا۔ ان کی جماعت کو ”کلین شیو جماعت اسلامی“ بھی پکارا گیا۔ اس سب کے ہوتے ہوئے بھی عوامی طورپر بے پناہ مقبول عمران خان گھبراگئے۔ پیپلز پارٹی کئی حوالوں سے ایک روشن خیال جماعت سمجھی جاتی ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو سمیت اس کے کئی رہ نما مذہب کے نام پر پھیلائی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ سندھ میں آج بھی اس کی حکومت ہے۔ اسی صوبے کی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت ایم کیو ایم ہے۔ یہ جماعت بھی خود کو 80ءکی دہائی سے شہری طبقات میں موجود ”روشن خیالوں“ کی نمائندہ کہلانے پر بضد رہی ہے۔ ان دونوں جماعتوں نے متفقہ طورپر تبدیلی مذہب کو ریگولیٹ کرنے کے لئے ایک قانون بنایا۔ ہمارے ملاﺅں نے اس قانون کی مخالفت کا اعلان کردیا۔ تحریک چلانے کی دھمکی دی۔ آصف علی زرداری گھبرا گئے۔ جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے اسلام کے رہ نماﺅں سے گفتگو کے بعد انہوں نے اس قانون کا نفاذ مو¿خر کروادیا۔ قانون سازی کا مکمل آئینی اختیار رکھتے ہوئے بھی سندھ اسمبلی بغیر کسی استثناءکے ”بکری“ ہوگئی۔
میں نے اپنے دفاع میں صرف دو ٹھوس اور حالیہ مثالوں کا چناﺅ کیا ہے ان مثالوں کی بدولت میرے اعتراف کو حقیقت پسندی شمار کیا جانا چاہیے۔ محض بزدلی اور حتیاط نہیں پنجابی کا ایک اور محاورہ آپ کو یہ حقیقت بھی یاد دلاتا ہے کہ کبھی کبھار ربّ سے زیادہ آپ طاقت ور کے گھونسے کی پہنچ یعنی رینج میں ہوتے ہیں۔اس گھونسے سے بچنے کی فکر کرنا چاہیے۔ مجھے اس گھونسے کا خوف نہ ہوتا تو شاید حال ہی میں ”گم شدہ“ ہوئے ایک شاعر کا ذکر بھی کر دیتا ہر معاملے پر نظر رکھنے والے چودھری نثار علی خان کو بھی خبر نہیں کہ ان دنوں وہ شاعر کہاں ہیں۔ ہمارے عوام کی اکثریت کو مگر قائل کردیا گیا ہے کہ وہ شاعر ہمارے دینی شعائر کا احترام نہیں کرتا تھا۔ ایک تفصیلی بیان کے ذریعے گزشتہ جمعرات کی شب چکری کے دبنگ راجپوت نے فریاد کی کہ ”گم شدہ“ شاعر کے بارے میں ایسے بے بنیاد الزامات نہ لگائے جائیں۔ چودھری صاحب اکثر میری تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔ اس بات سے مگر انکار نہیں کہ وہ صوم وصلوة کے پابند ہیں ان کے بدترین دشمن نے بھی کبھی ان پر سیاست کے ذریعے ناجائز دولت جمع کرنے کا الزام نہیں لگایا۔قومی سلامتی کے ادارے بھی ان کی حب الوطنی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ان جیسا طاقت ور شخص بھی جب درد بھرے لہجے میں وضاحتیں دینے پر مجبورہوجائے تو سمجھ آجاتی ہے کہ ہمارے ملک میں دلوں اور ذہنوں پر ان دنوں کونسا بیانیہ حاوی ہے۔ میرے دوست مگر یہ حقائق تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ میں ان کی جرا¿ت کو سلام پیش کرنے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتا ہوں؟!