انٹرویو:فرخ شہباز وڑائچ عکاسی :سعید احمد سعید
زندگی میں جن چند لوگوں سے ملنے کی خواہش مجھے ہمیشہ سے رہی ہے ڈاکٹر امجد ثاقب کا نام ان لوگوں میں سر فہرست ہے۔ کمالیہ کے پرائمری سکول سے اپنی تعلیم کا آغاز کرنے والے اس بچے کے بارے میں کون کہہ سکتا تھا کہ ایک دن اس بچے کی شہرت سات سمندر پار تک چا پہنچے گی۔۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کا نام سنتے ہی ”نام ہے اعتماد کا” یہ جملہ دل پر دستک دیتا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب لاہور کی معروف میڈیکل یونیورسٹی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی سے گریجوایٹ ہیں۔ سول سروس جوائن کی لیکن پھر سول سروس کی شاہانہ زندگی چھوڑ کرخدمت خلق کا راستہ اپنا لیا۔نیکی کتنی طاقتور ہوتی ہے یہ سوال ڈاکٹر امجد ثاقب سے پوچھا جا سکتا ہے۔ محنت کرنے والے اور نتائج اللہ کی ذات پر چھوڑ دینے والے ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان کے ادارے اور کام کی کامیابی کی شہرت سات سمندر پار جا پہنچی ۔
یہاں تک کہ امریکا کی سب سے پرانی ہاورڈ یونیورسٹی جسے دنیا کی سب سے امیر یونیورسٹی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے کے تینوں بزنس اسکولوں نے انھیں، باری باری اپنے ہاں خصوصی دعوت پر بلوایا۔ مائیکرو فنانس کا مشہور ایکسپرٹ میلکم ہارپر لندن سے بطور خاص لاہور آیا، اخوت کے مائیکرو فنانس کا کام اور اثرات دیکھنے۔ حیرت کا سمندر ساتھ لیے واپس گیا۔اخوت نے بلاسودی چھوٹے قرضوں کے اجراء کے جس اچھوتے ماڈل کو متعارف کروایا اسے کامیاب ہوتے دیکھ کر دنیا حیران ہے۔ کیونکہ اخوت ماڈل کسی طرح بھی رائج اصولوں پر پورا نہیں اترتا۔ لیکن جذبہ سچا ہو تو کامیابی ساری دنیا چھوڑ کر آپ کے پاس آجاتی ہے۔ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے لوگ ہمارے معاشرے کے لیے غنیمت ہیں۔مایوسی اور فرسٹریشن کے اس ماحول میں ڈاکٹر صاحب جیسے لوگ اس ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی مانند ہیں جو دلوں تک کو معطر کر دیتی ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب خوشبو سے لبریز اور بامقصد نثر بھی لکھتے ہیں۔شہر لب دریا،ایک یادگار مشاعرہ،غربت اور مائیکرو کریڈٹ،دشت ظلمت،گوتم کے دیس میں (سفر نامہ) سمیت کثیر تعداد میں فروخت ہونے والی کتاب”اخوت کا سفر” کے مصنف ہیں۔آجکل ایک نئی کتاب پر کام کر رہے ہیں۔پاکستانی حکومت نے ان کی خدمات کے اعتراف میں ستارہ امتیاز جبکہ دبئی میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔سول سروس اکیڈمی ،لمز اور بہت سے قومی ادارے باقائدگی سے ان کے لیکچر کا اہتمام کرتے ہیں۔پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے ممبر بورڈآف ڈائریکٹر ہیں۔ یونیورسٹی آف پنجاب،ایجوکیشن یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ ممبر ہیں۔ وزیراعظم پاکستان نے آپ کوچیئرمین سٹیرئنگ کمیٹی برائے فری لون پروگرام نامزد کیا ہے۔ ہماری سوسائٹی کو مزید ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے لوگوں کی ضرورت ہے جو نا صرف لوگوں میں آسانیاں تقسیم کر رہے ہیں بلکہ یہ روشن مثال بن رہے ہیں جنہیں دیکھ کر کتنے ہی اندھیر راستے روشنیوں کی شاہراہوں میں بدل رہے ہیں۔سچ پوچھیں توہماری تاریخ ہمیشہ ڈاکٹر امجد ثاقب پر فخر کرے گی۔۔۔!
س :لکھنے کا شوق کہاں سے آیا؟
ڈاکٹر امجد ثاقب :یہ مجھے نہیں پتا میرے استاد نے مجھے کہا لکھا کرو ، بس ایسے لکھنا شروع کردیا۔
س :پہلی تحریر کب لکھی ؟
ڈاکٹر امجد ثاقب:میں سکول میں تھا جب سکول پر یہ مضمون لکھنے کا کہا گیا۔ میں نے اپنے مضمون میں سکول پر تنقید کی ۔ میونسپل کمیٹی والوں کی لاپرواہی پر تنقید تھی ۔ میرے ٹیچر نے وہ مضمون میونسپل کمیٹی کے چیئرمین کو بھجوادیا ۔ چیئرمین نے میرے والد صاحب کو شکایت کردی ۔ لیکن دراصل ٹیچر سے ملنے والی وہ حوصلہ افزائی تھی جس سے آگے بڑھنے میں مدد ملی ۔ کالج میں میگزین کا ایڈیٹر بھی رہا۔
س :بچپن شرارتوں سے بھرپور تھا؟
ڈاکٹر امجد ثاقب:نہیں بہت زیادہ نہیں ہلکی پھلکی شرارتیں دراصل مجھے بچپن میں ایسے استاد مل گئے جنہوںنے مجھے میچور کر دیاتھا۔ میرا رجحان مسجد ومطالعہ کی طرف تھا۔ میں اقبال اور غالب کو پڑھتاتھا۔
س :بچوں کے رسائل بھی زیر مطالعہ رہے؟
ڈاکٹر امجد ثاقب :جی بالکل ان دنوں تعلیم وتربیت نونہال ،بچوں کی دنیا آیا کرتے تھے۔ میں باقاعدگی سے پڑھتا تھا ۔
س :آپ کی زندگی میں والدین کا کیا کردار ہے ؟
ڈاکٹر امجد ثاقب :والدین کی طرف سے دی گئی اخلاقی تربیت ،ایمانداری ،محنت ،سادگی دوسروں کے ساتھ کیسے پیش آنا ،چادر دیکھ کر پائوں پھیلانا ،مطالب سے بڑی اچھی قدریں آپ اپنے اور اپنے گھر سے ہی سیکھتے ہیں۔
س : گھر کا ماحول اچھا تھا ؟
ڈاکٹر امجد ثاقب :بس آپ ادبی تو نہیں کہہ سکتے مگر علمی ضرور تھا کیونکہ میرے والد صاحب بھی پڑھے لکھے تھے اور والدہ محترمہ بھی تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ میرے گھر کے پاس میونسپل لائبریری تھی جس کا لائبریرین میرا دوست بن گیا۔ لائبریری میں اس زمانے کے سارے اخبار آتے تھے۔ اخبار ساڑھے چھ تک پہنچ جاتے تھے ۔ میں نے انہیں کہاجی لائبریری دیر سے کھلتی ہے اخبار باہر پڑے رہتے ہیں میں لے جایا کروں گا اور نو بجے واپس لوٹا دیا کروں گا۔ وہ رضا مند ہوگئے۔ میں صبح اُٹھ کر سارے اخبارات کا مطالعہ کرتا تھا۔ اس سے یہ فائدہ ہوا میرا ادبی ذوق شوق بڑھنے لگا۔ میری اُردو بہتر ہوگئی۔ سب سے بڑھ کر مجھے سیاسی و معاشرتی تبدیلیاں سمجھ میں آنے لگیں ۔ بس یہی وہ ماحول تھا جہاں مجھ میں لکھنے پڑھنے کا شوق آیا۔
س :پاکستان میں کون سی جگہ پسند ہے ؟
ڈاکٹر امجد ثاقب:مجھے لاہور پسند ہے اس کے بعد ہل سٹیشن ہیں ۔مری نتھیا گلی وغیرہ۔
س :کھانے میں کیا شوق سے کھاتے ہیں ؟
ڈاکٹر امجد ثاقب :کھانے میں جو مل جائے کھا لیتاہوں۔ مرغ پلائو پسند ہے۔
س :اپنی زندگی سے مطمئن ہیں؟
ڈاکٹر امجد ثاقب :جی الحمدللہ میں اپنی زندگی سے مطمئن ہوں۔
س:زندگی کی کوئی خواہش جو ادھوری رہ گئی ؟
ڈاکٹر امجد ثاقب :دیکھیں خواہشیں تو بہت سی ہوتی ہیں۔ کچھ خواہشیں اپنی ذات سے متعلق ہوتی ہیں ، کچھ خواہشیں اپنے ملک سے متعلق بھی ہوتی ہیں۔ میری خواہش ہے کہ ”اخوت ” پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ بن جائے۔ اخوت یونیورسٹی پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہو۔ میرے ساتھی آگے بڑھیں ، کامیابی حاصل کریں ۔
س:”اخوت ” کیسے وجود میں آیا؟
ڈاکٹر امجد:چند لوگوں نے چند ہزار سے شروع کیا۔ شروع کے مراحل میں خواتین کو قرضے فراہم کیے۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیںبہت کم پیسوں سے ”اخوت ”کاآغاز ہوا ۔ ہم چند دوستوں نے مل کر اس کاآغاز کیا۔
س :کون دوست تھے اس میں آپ کے ساتھ ؟
ڈاکٹرامجد:سول سروس کے دوست تھے۔
اردو پوائنٹ :سول سروس کی آسان اور پرتعیش زندگی چھوڑ کر کیسے یہ مشکل کام کررہے ہیں؟
ڈاکٹر امجدثاقب:دیکھیں انسان کو زندگی میں ہمیشہ سے کام کرنا چاہیے۔ جس سے خوشی ملے ۔ میں اکثر یہ مثال دیتاہوںکہ اپنی کتاب میں بھی یہ بات لکھی ۔ وہ مقام جہاں ”خواہش قلبی اور منصبی مل جائیں ”اس مقام کی تلاش کرنی چاہیے۔ ہم کرتے کچھ ہیں کرنا کچھ چاہتے ہیں۔ :بالکل یہی کام اسی میں مجھے سکون ملتاہے ۔ اصل کام یہی ہے یعنی خدمت میں یہ نہیںکہہ رہامیں بہت اچھا کام کررہاہوں۔ میں یہ کہنا چاہتاہوں کام یہی اچھاہے یہی کرنا چاہیے۔ آپ کا ویژن ہوتاہے کہ آپ کس سطح پر یہ کرسکتے ہیں۔
اردو پوائنٹ :صبح کس وقت بیدا ر ہوتے ہیں؟
ڈاکٹر امجد ثاقب :میں جلدی سوتاہوں صبح تین بجے اُٹھ جاتاہوں ۔
س :ترقی کاراز کیاہے ؟
٭ :مقصد نیت اور محنت ۔ دیکھیں کامیابی اللہ نے دینی ہے ۔ میرے نزدیک اخلاص یعنی …سچائی کے ساتھ اپنے مقصد کے ساتھ محنت کرتے ہیں۔
س :کوشش کا کتنا عمل دخل کامیابی میں ؟
ڈاکٹر امجد ثاقب :عمل دخل ہے مگر اخلاص ، پہلے آتاہے صرف کوشش کرنے سے حاصل ہوئی ، کامیابی دائمی نہیں ہوتی۔
س :کامیابی کیا ہے ؟
ڈاکٹر امجد ثاقب :میں اپنی کامیابی کو ان پٹ سے جانتاہوں ۔ آئوٹ سے نہیں ۔ میں اپنی کامیابی یہ سمجھتاہوںمیں نے کتنا کام کیا ؟ دیکھیں نتیجہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ویسے کامیابی تو یہی ہے کہ نتیجہ کیا نکلا۔ لیکن کیا آپ اللہ کے کاموں میں دخل دے سکتے ہیں؟ سو کامیابی یہی ہے کہ آپ نے اپنی ذمہ داری کیسی نبھائی ۔ ہم سے قیامت والے دن نتیجے کے متعلق پوچھا جائے گا۔ مجھ سے پوچھا جائے گا مجھے جو وقت ملا میں نے کہاں خرچ کیا ۔ مجھے جو علم ملا اسے کیسے خرچ کیا۔
س :ہمارے تعلیمی نظام میں کیا خامیاں ہیں ؟
ڈاکٹر امجد ثاقب :یکساں نظام تعلیم نہیں ہم طبقاتی میں تعلیم دے رہے ہیں۔ ہمارا نصاب ہماری ضروریات پوری نہیں کررہا ۔ ہمیں علم کی اہمیت کا اندازہ نہیں ۔ ہم علم کو نوکری کاذریعہ سمجھتے ہیں۔ ہم علم کی قدر سے بے بہرہ ہیں۔ ہماری حکومت ہمارے اساتذہ اور ہمارے دانشور وں کو مل کر سوچنا ہوگا۔
س :موجودہ دور کے ادب کو کیسے دیکھتے ہیں ؟
ڈاکٹر امجد ثاقب:اس عہد کی تصویر دکھا تاہے ۔ ہمارا ادب ہمارے تعلیمی معیار کی سی صورت حال کا شکار ہے۔ مجھے کوئی بڑا ادیب نظر نہیں آرہا۔ مجھے اقبال نظر نہیں آ رہا مجھے کوئی غالب ،کوئی فیض جیسا نظر نہیں آتا۔ ہمیں سیاست میں زوال ہے۔ من حیث القوم ہمارے ہاں زوال کا راج ہے۔ ہمارے روگ بین الاقوامی ادب نہیں پڑھتے ۔ ہمارے بچے اب اُردو سے دور ہیں۔ اُردو صرف زبان نہیں ایک تہذیب کانام ہے۔ جسے اقبال کا ایک شعر ایک پیغام ، ایک ویژن کا نام ہے۔ ہمارا فکری ،تہذیبی اثاثہ ہے۔ آپ اپنے ماضی سے کٹ کر کیسے ترقی کرسکتے ہیں۔
س :”اخوت ” ڈاکٹر امجد ثاقب کے بعد کیسے چلے گا؟
ڈاکٹر امجد ثاقب :دیکھیں چلے گا یا نہیں چلے گا اگر ”اخوت ”نہیں چلے گا تو کوئی اور ”اخوت ” جیسا ادارہ آجائے گا۔ ہمارے قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو سمجھتے تھے
”اخوت ”ایک سوچ کانام ہے جو قائم رہے گی ۔ کسی اور شکل میں ہم نہیں تو کوئی اور لوگ اس سوچ کو آگے لے کر بڑھیں گے۔ ”اخوت ” کا مطلب یہ ایک دوسرے کی مدد کرنا۔
س :کتنے گھنٹے کام کرتے ہیں ؟
ڈاکٹر امجد ثاقب :میرا خیال ہے ١٦گھنٹے لیکن یہ کام نہیں کیونکہ جو میں کررہاہوں یہ میری خوشی ہے ۔ مجھے یہ سب کرکے خوشی ملتی ہے۔ میں کام نہ کروں تو ڈپریشن کا شکار ہوجاتاہوں۔میرے لیے یہ کام نہیں رہاہے ۔ اس سے آگے بڑھ کر کوئی چیز ہوگئی ہے۔
س : قارئین کے لیے کیا پیغام دیں گے ؟
ڈاکٹر امجد ثاقب :محنت کریں ،ماں باپ کی عزت کریں ۔ زندگی کو مقصدیت میں ڈھالیں۔ غیر نصابی سرگرمیوں میں آگے بڑھیں ، شاعری ، ادب کامطالعہ کریں۔دیکھیں جسے کچھ لوگ کہتے ہیں ۔ علم پہلے آتاہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں ،میں کہتاہوں سب سے پہلے اخلاص آتاہے۔ آپ ایسا کررہے ہیں،کیوں کررہے ہیں۔ کس کے لیے کررہے ہیں ؟تو اخلاص کے پھر مستقل کامیابی نہیں ملتی ۔ ہاںچھوٹی موٹی کامیابی مل جائے گی مگر وہ مستقل نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے اخلاص چاہیے ہوگا۔ دائمی چیز کے پس منظر میں خلوص ضرور ہوتاہے۔