تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال
پاکستان سمیت دنیا بھر میں سے ہر سال 16 نومبر کا دن ‘برداشت کے عالمی دن’ کے طور پر منانے اور اس سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے طور پر منایا جاتا ہے ۔اس دن کا آغاز 1996 سے ہوا ،اس سال ہم 19 و اں یوم عدم برداشت منا رہے ہیں ۔لیکن ہم دیکھتے ہیں، برداشت کا ہمارے معاشرے سے خاتمہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگوں میں عدم برداشت کے رویوں میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔اس کے اسباب میں ،ناانصافی ،چور بازاری، اقربا پروری، مہنگائی، بے روزگاری اور میرٹ کی خلاف ورزیاں وغیرہ ہیں،میڈیا پر نشر ہونے والے پر تشدد پروگرام، فلمیں بڑوں اور بچوں پرمنفی اثر ڈالتا ہے ۔اور اس کے معاشرے میں منفی اثرات سامنے آرہے ہیں، لوگ اپنے آپکو غیر محفوظ تصور کررہے ہیں۔
میرے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس وقت عوام و خواص کی اکثریت عدم برداشت کی اْس سطح پر پہنچ چکی ہے اگر غور فرمائیں ،تجزیہ کریں تو نفسیاتی مریض بن چکی ہے۔مذاق تک برداشت نہیں کرتا کوئی ،ہلکی پھلکی باتوں کو بھی ہت عزت سمجھا جاتا ہے ، بْری بات تو کیا کسی کی اچھی بات بھی برداشت کرنے کو تیارنہیں۔لوگ معمولی سی بات پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں ،ہر فرد دوسرے کو برداشت کرنے کے بجائے کھانے کو دوڑتا ہے۔ گزشتہ 68 سال سے اور بالخصوص چندسال سے قتل و غارت گری، دہشت گردی، فرقہ واریت ، خودکْشی کے واقعات، میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔اس کی وجہ بھوک و افلاس ،بے روزگاری ،جہالت ،اور قانون کا عدم نفاذ ہی ہے۔
ملک کے مذہبی و سیاسی رہنما ملک میں عدم برداشت کے خاتمے کے لیے اہم کردار ادا کرر سکتے ہیں ،کیونکہ کسی حد تک یہ ان کا ہی پیدا کردا ناسور ہے۔جس طرح عدم برداشت اوپر سے نیچے کی طرف آئی ہے اسی طرح برداشت ،میانہ روی ،رواداری بھی اوپر سے نیچے کی طرف آئے گی ۔لوگ اپنے رہنمائوں کی طرف دیکھتے ہیں، ان کا اثر قبول کرتے ہیں، ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں ۔اس کے لیے سیمینار ہوں، ورکشاپس ،تقاریر کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔
اس کے لیے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے ۔اپنے مخالف فرقے یا مکتب فکر کی کتنی مخالفت کرنی ہے اس سے مخالفت کی حد کیا ہے ،یہ طے کرنا ہو گا ہمارے مذہبی رہنمائوں کو اور اسی طرح سیاسی رہنمائوں کو بھی طے کرنا چاہیے کہ مخالف پارٹی کی مخالفت میں کہاں تک جانا ہے ۔ایسا ہو جائے یعنی میانہ روی ، رواداری، تحمل مزاجی ، ایک دوسرے کو برداشت کرنا، معاف کر دینا اور انصاف کرنا یہ وہ خوبیاں ہیں، جن کی وجہ سے معاشرے میں امن و چین کا دور دورہ ہوجائے گا ۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عدم برداشت ہماری نفسیات ،جسم،روح ،معاشرت ،معاش ،تعلقات کے لیے تباہی اور بربادی ہے۔
ہم کو چاہئے کہ ہم اپنی زندگی میں بھی تبدیلی لائیں اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے اور وہ کھلے دل سے اسے تسلیم کرتے ہوئے معافی مانگ لے اسلام تو میانہ روی اور رواداری کا درس دیتا ہے اور دوسرے مذاہب کا احترام کرنے کی تلقین کرتا ہے ، حتیٰ کہ اگر کوئی زیادتی کرے تو معاف کر دینے کو افضل قرار دیا گیا ہے اعتدال پسندی اور رواداری دین اسلام کے سنہری اصول ہیں۔
آئیے ہم چند ایسی آیات ربانی کا مطالعہ کرتے ہیں ،جو ہمیں تحمل و برداشت کا درس دیتی ہیں۔
ترجمہ” (اے حبیب مکرم) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں اور ( اے انسان) اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ ( ان امور کے خلاف) تجھے ابھارے تو اللہ سے پناہ طلب کیا کر، بے شک وہ سننے والا، جاننے والا ہے ۔” ( الاعراف)
” اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں۔” (آل عمران: 134)
دین میں کوئی زبردستی نہیں۔” (البقرہ:256)
روحانی سکالر میاں مشتاق عظیمی نے برداشت کے حوالے سے ایک بار فرمایا کہ ”ہمارے معاشرے کا عجیب ہی چلن ہو گیا ہے ، بچہ والدین کی بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور اسی طرح والدین بچے کی بات نہیں مانتے ، معاشرے میں افراد کی اکثریت اپنا موقف درست تسلیم کئے جانے پر مصر ہے ،چاہے وہ صحیح ہے یا غلط ، اس کے لئے انھوں نے طرح طرح کے دلائل گھڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسی طرح معاشرے میں عدم تحفظ بہت زیادہ پایا جاتا ہے کوئی فرد جو گھر سے نکلتا ہے اسے یہ پتہ نہیں ہے کہ وہ گھر کو واپس لوٹے گا بھی کہ نہیں۔ عدم برداشت کی ایک وجہ معاشی بدحالی بھی ہے ، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روزگار کے وسیع مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بھی افراد کی اکثریت ذہنی دباؤ میں رہتی ہے، جس سے انسانی رویے میں غصہ پیدا ہوتا ہے۔
اسلام رواداری کا درس دیتا ہے ، اگر ہم لوگ حضو ر ۖکے اسوہ حسنہ پر عمل کریں تو ہمارے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ حکومت ہر فورم پر رواداری کو اجاگر کرنے کے لئے کوشش کرے ، مذہبی و سماجی رہنما اس حوالے سے خاص طور پر کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ عوام میں پایا جانے والا عدم تحفظ کا احساس ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں، اس سے عوام کو ذہنی سکون ملے گا۔
تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال