counter easy hit

قائم مقام امریکی سفیر، طالبان کے دہشتگردوں کی فہرست سے نکلنے کا امکان

اسلام آباد(ایس ایم حسنین) افغانستان کی حکومت اور طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے میں پیشرفت کے بعد طالبان کے اہم مطالبات کو عملی شکل میں نافذ کیا جائیگا، طالبان کا اہم مطالبہ شریعہ تعلیم پرائمری کے طلبا وطالبات کیلئے نفاذکی صورت میں سامنے آیا ہے جبکہ طالبان نے مزید قیدیوں کی رہائی اور انھیں دہشتگردوں کی فہرست سے نکالنے کے مطالبات بھی سامنے آئے ہیں۔ غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق افغانستان میں امریکہ کے قائم مقام سفیر راس ولسن نے کہا ہے کہ طالبان یہ توقع کر رہے ہیں کہ دسمبر کے وسط تک افغان حکومت ان کے مزید سات ہزار قیدی رہا کر دے گی۔ امریکی سفیر کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغان حکومت اور طالبان کے دوحہ میں جاری بین الافغان مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے اور فریقین مذاکرات کے ایجنڈے پر متفق ہو گئے ہیں۔ افغان میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اتوار کو کابل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی سفارت کار راس ولسن نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کا حصہ ہے۔ ان کے بقول طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ دوحہ معاہدے کے مطابق دسمبر کے وسط تک ان کے قیدیوں کی رہائی کے معاملے میں پیش رفت ہو گی۔ لیکن امریکی سفارت کار نے واضح کیا کہ امریکہ، طالبان معاہدے کے مختلف حصے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ لہذٰا ان کے بقول دیگر معاملات میں پیش رفت کے بغیر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایک معاملے پر الگ سے عمل ہو۔ افغان طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے کہا ہے کہ امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کی دوحہ میں طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر سمیت طالبان وفد سے ملاقات میں باقی ماندہ طالبان قیدیوں کی رہائی پر بات چیت ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے بعض طالبان رہنماؤں کے نام دہشت گردوں کی فہرست سے نکالنے پر بھی تبادلۂ خیال ہوا ہے۔

افغان امور کے تجزیہ کار طاہر خان کا کہنا ہے کہ طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ مزید قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ دوحہ معاہدے کے عین مطابق ہے۔

طاہر خان کے بقول یہ قیدی اُن پانچ ہزار طالبان قیدیوں کے علاوہ ہیں جن کی رہائی پہلے ہی عمل میں آ چکی ہے۔

ان کے بقول معاہدے کے تحت طالبان کو بھی مزید حکومتی قیدی رہا کرنا ہوں گے جب کہ یہ یقین دہانی بھی کرانی ہو گی کہ رہائی پانے والے قیدی دوبارہ میدانِ جنگ کا رُخ نہیں کریں گے۔

طاہر خان کا کہنا ہے کہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اقوامِ متحدہ کی فہرست سے طالبان رہنماؤں کے ناموں کو حذف کرانے کا معاملہ تشدد میں کمی اور افغان تنازع کے پرامن حل سے مشروط ہے۔

طاہر خان کہتے ہیں کہ افغان حکومت طالبان سے تشدد میں کمی اور جنگ بندی کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ ان کے بقول افغان حکومت اس لیے بار بار جنگ بندی پر اصرار کر رہی ہے کیوں کہ حال ہی میں افغانستان میں تشدد کے واقعات اور طالبان کے حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف ان کے بقول افغان حکومت بھی طالبان اہداف کو نشانہ بنا رہی ہےطاہر خان کے بقول جب تک بین الافغان مذاکرات میں کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہو جاتی، طالبان جنگ بندی پر آمادہ نہیں ہوں گے۔

دوسری جانب افغان صدر کے ترجمان صادق صدیقی کا کہنا ہے کہ طالبان ماضی میں اپنے قیدیوں کی رہائی سمیت کئی مطالبات کرتے رہے ہیں۔

لیکن ان کے بقول افغان حکومت اور بین الاقوامی برادری کا طالبان سے بھی یہ مطالبہ ہے کہ وہ تشدد میں کمی اور جنگ بندی پراتفاق کریں۔

پیر کو کابل میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران صادق صدیقی نے کہا کہ دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کی مذاکراتی ٹیموں کے درمیان مذاکرات میں کسی پیش رفت سے پہلے مزید طالبان قیدیوں کی بات کرنا قبل از وقت ہے

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website