اسلام آباد(ویب ڈیسک) ملک کی معاشی حالت بہتر بنانے کیلئے وزیراعظم عمران خان اپنی معاشی ٹیم میں نئے لوگوں کی شمولیت کے خواہاں ہیں۔ اب یہ طے ہو چکا ہے کہ شبّر زیدی چیئرمین ایف بی آر کے عہدے پر واپس نہیں آ رہے۔ ہارون اختر کو وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے اُمور آمدنی (ریونیو) کےانصار عباسی انے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔۔عہدے کی پیشکش کی گئی تھی۔ لیکن اس بات پر کابینہ کے ایک سینئر عہدیدار اطمینان محسوس نہیں کرتے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ جب ہارون اختر سے ملاقات کی تھی تو وہ اُن سے بہت متاثر ہوئے تھے۔ چند دن بعد، وزیراعظم نے اختر کو دوبارہ ملاقات کیلئے بلایا لیکن اس مرتبہ وزیراعظم کو پوری معاشی ٹیم کے ہمراہ اختر سے ملاقات کرنا تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے ہارون اختر کو ریونیو کے محاذ پر ٹیم میں شمولیت اختیار کرنے کیلئے کہا۔وزیراعظم ٹیکس جمع کرنے کے معاملے پر مطمئن نہیں اور چاہتے تھے کہ ایک ایسا متحرک شخص ٹیم کا حصہ بنے جو نمایاں طور پر ٹیکسوں میں اضافے کیلئے کام کر سکے۔یہ وہ محاذ ہے جس میں پی ٹی آئی حکومت کے پہلے سال کے دوران منفی کارکردگی نظر آئی جبکہ رواں سال اس میں 16؍ فیصد کا اضافہ ہوا تو ہے لیکن اب بھی معاملہ ہدف سے بہت پیچھے ہے۔ تاہم، وزیراعظم کی ہارون اختر کو کی جانے والی پیشکش پر عمل نہیں ہو سکا۔کئی لوگوں کو نہیں معلوم کہ آخر کیا ہوا اور کہیں وزیراعظم نے اپنی سوچ بدل تو نہیں دی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کابینہ کے مذکورہ سینئر رکن چاہتے تھے کہ ہارون اختر ایف بی آر کے چیئرمین کے طور پر تو کام کریں لیکن ریونیو کے انچارج وزیر کی حیثیت سے نہیں۔ کابینہ کے مذکورہ سینئر رکن اپنا دائرہ اختیار کسی کے ساتھ بانٹنا نہیں چاہتے۔قبل ازیں حمّاد اظہر بھی اسی وجہ کی بناء پر ریونیو کے وزیر نہیں رہ پائے تھے۔ لگتا ہے کہ نون لیگ کے دور میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور ریونیو کے طور پر کام کرنے والے ہارون اختر چیئرمین ایف بی آر کا عہدہ لینے کیلئے آمادہ نہیں ہیں۔ تو آخر نیا چیئرمین ایف بی آر کون ہوگا؛ یہ وزیراعظم عمران خان کیلئے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔وزیراعظم آفس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ شبر زیدی، جو اس وقت چھٹیوں پر ہیں، نے وزیراعظم عمران خان کو زبانی آگاہ کر دیا ہے کہ وہ واپس نہیں آئیں گے۔ زیدی کا متبادل تلاش کرنے کے معاملے میں حکومت کی عدم صلاحیت کے دوران ایف بی آر کو ٹیکس جمع کرنے کے معاملے میں رواں مالی سال کے ابتدائی 8؍ ماہ یعنی جولائی 2019ء تا فروری 2020ء تک دوران زبردست کمی (325؍ ارب روپے) کا سامنا ہے۔طبی بنیادوں پر زیدی کی رخصت کے بعد، حکومت نے نوشین جاوید کو ایف بی آر کا قائم مقام چیئرمین لگایا ہے۔ دی نیوز کے سینئر رپورٹر مہتاب حیدر کی ایک حالیہ خبر کے مطابق، کابینہ کے مذکورہ سینئر رکن چاہتے ہیں کہ چیئرمین ایف بی آر ان کی پسند کا مقرر کیا جائے۔ ایف بی آر نے جولائی تا فروری کے عرصہ کے دوران 2714؍ ارب روپے جمع کیے ہیں۔نظرثانی کے بعد نیا ہدف 3039؍ ارب روپے رکھا گیا ہے لہٰذا شارٹ فال 325؍ ارب روپے رہا۔ ہر گزرتے مہینے کے ساتھ یہ شارٹ فال بڑھتا جا رہا ہے۔ اس خبر میں بتایا گیا تھا کہ موجودہ رفتار کے تحت ریونیو کا شارٹ فال رواں مالی سال کے آخر تک 700؍ ارب روپے تک جا سکتا ہے۔ایف بی آر نے 2019-20ء کے بجٹ کے موقع پر ٹیکس جمع کرنے کا ہدف 5.5؍ ٹریلین روپے رکھا تھا لیکن پہلے جائزے اور آئی ایم ایف کے تحت دوسری قسط کے اجراء کے بعد حکومت نے ایف بی آر کا ہدف کم کرکے 5555؍ ارب روپے سے کم کرکے 5238؍ ارب روپے کر دیا۔ اقتدار میں آنے سے قبل وزیراعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی حکومت کے ایک سال میں دوگنا ٹیکس جمع کریں گے۔تاہم، ایسا نہ ہوسکا۔ اس کے برعکس، 2018-19ء کا سال پی ٹی آئی حکومت کیلئے زبردست ہزیمت کا باعث بنا کیونکہ ایف بی آر نے جو ٹیکس جمع کیا تھا وہ اس سے پہلے جمع کردہ ٹیکسوں کے مقابلے میں بہت کم تھا۔ صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے وزیراعظم چیئرمین ایف بی آر کے طور پر شبر زیدی کو لائے جو شاید اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے چلے گئے۔تاہم، اس بات کی غیر مصدقہ اطلاعات تھیں کہ زیدی اور کابینہ کے مذکورہ سینئر رکن کے درمیان اختلافات ہیں۔ جس وقت حکومت کیلئے ایف بی آر اور ٹیکس جمع کرنے کا معاملہ دردِ سر بنا ہوا ہے۔ایک انگریزی روزنامے میں خبر شائع ہوئی تھی کہ حکومت کی جانب سے ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنے کی مہم کو دھچکا لگا ہے اور صرف 25؍ لاکھ لوگوں نے انکم ٹیکس ریٹرن فائل کیے حالانکہ این ٹی این نمبر رکھنے والوں کی تعداد 62؍ لاکھ روپے ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کی ٹیکس جمع کرنے کی مشینری کا دائرہ اختیار کمزور پڑتا جا رہا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ریٹرن فائل کرنے والوں کی تعداد 2؍ لاکھ 78؍ ہزار 581؍ رہی جو گزشتہ سال ٹیکس ریٹرن جمع کرانے والوں سے 11؍ فیصد کم ہے، حالانکہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم بھی متعارف کرائی اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے معاملے میں تاجروں کے آگے گھٹنے ٹیک بھی ٹیک دیے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ٹیکس بیس میں کمی ایف بی آر چیئرمین شبر زیدی کے دور میں ہوئی، جنہیں نجی شعبے سے اصلاحات متعارف کرانے کیلئے لایا گیا تھا۔