تحریر: ممتاز ملک, پیرس
یہ گونج یہ آواز میرے بچپن میں دیکھے ایک ڈرامے “کاری” کے ٹائٹل سونگ کے ہیں جو اس وقت بھی مجھے دہلا دیتے تھے اور آج بھی مجھے تڑپا دیتے ہیں نہ اس وقت کسی کو یہ بات روکنے کی ہمت ہوئی اور نہ آج کوئی اس قتل ہونے والی بیٹی کا انصاف مانگتا ہے اور نہ ہی کوئی کرتا ہے
. اگر بات بدکردار کی ہی ہے تو اس معاشرے کا 80 % مرد کسی نہ کسی درجے پر اس میں ملوث ہے . کوئی طاقت سے بدکاری کرتا ہے تو کوئی زبان سے بدکاری کرتا ہے اور جو یہ دونوں حیثیتیں نہیں رکھنا وہ یہ غلیظ فریضہ اپنی آنکھوں سے اداکرتا ہے۔
لیکن پھر بھی ہر بار فاحشہ ایک عورت ہی کہلاتی ہے . بدکار اسی کو کہا جاتا ہے اور قتل بھی وہی کی جاتی ہے . کیا اس نے یہ سب کسی دیوار کیساتھ کیا تھا . وہ خبیث مرد کہاں ہے؟ جسےاس پورے معاملے میں جسے باپ چھاتی چوڑی کر کے اپنے پیچھے چھپا لیتا ہے اور بدلے میں دے دیتا ہے
ہر بات سے انجان ایک معصوم بیٹی کو . کبھی قتل ہونے کے لیئے اور کبھی سارے زندگی سسک سسک کر پورے گھر کی نوکرانی اور رکھیل بنانے کے لیئے . اور یہ سب دیکھ دیکھ کر اپنی مونچھوں کو تاو دے ددے کر اپنے جیسے بے غیرتوں کا ہیرو بھی بن جاتا ہے ۔
کون سا بے غیرت ایسے مرد کو بیٹی دے دیتا ہے؟کون سا بے غیرت ایسے مرد کو بہن اور بیٹی کے قتل کی مبارکباد دیتا ہے ؟ قابل شرم ہیں وہ سب لوگ جو اللہ کے بنائے ہوئے ضابطوں کے مقابلے پر بڑے بڑے کلے پہن کر بڑی بڑی داڑھیاں رکھ کر اور بڑے بڑے مراتب پر بیٹھ کر ہر روپ میں عورت کی ذلت کا پرچار بھی کرتے ہیں.
اور خود کو سب سے بڑا منصف بھی سمجھتے ہیں . دراصل میں اللہ کے دین کا سب سے بڑا مذاق اڑانے والے بھی یہ ہی بن جاتے ہیں اور ببانگ دل اللہ کے دین پر اپنے خود ساختہ رواجوں کی کالی چادر بھی ڈال دیتے ہیں ۔
بیٹی کا قتل کس کتاب میں پورا انصاف ہے کوئی بتائی گا مجھے اسے ورغلانے والا ایک مرد تو کالے منہ پر سہرا باندھ کر کسے اور اور کی بیٹی کو گدھی کی طرح ہانک کر لے آئے گا اور اور دوسرا مرد اس ورغلائی گئی لڑکی کے قتل کے بدلے میں غیرت کا سرٹیفکیٹ پھولوں کے ہار بنا کر پہن لے گا . اور خدا ایسی قوم کو غرق بھی نہ کرے تو کیا کرے؟؟؟ اور کیوں نہ کرے؟؟؟؟
تحریر: ممتاز ملک, پیرس