تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
313تھے تو لرزتا تھا کفراور کانپتا تھا زمانہ اورا ب اربوں مسلمان ہیں سبھی جمع ہو جائیں تو دنیا کا سب سے بڑا ریگستان بھی چھوٹا ہو گا مگر ہماری پرِ کاہ جتنی وقعت بھی نہ ہے۔اور ہم تو ایٹمی پاکستان ہونے کے باوجودخودداری کی زندگی گزارنے کے قابل بھی نہ ہیں زرداری جیسے لالچی زردار، شریف خاندان جیسے سود خورکاروباری صنعتکار،فضل الرحمٰن جیسے کٹھ ملائیت کے علمبردار،عمران جیسے جاگیر داروں ،صنعتکاروں کے محافظ و مدد گار، الطاف حسین جیسے راء کے ایجنٹ ،اغوا برائے تاوان بھتہ خور مافیازاور سامراجیوں کے یار جب تک ملکی سیاست میں گھسے ملکی اقتدار کو چمٹے رہیں گے ملک تا قیامت ترقی یافتہ ملکوں کی صف اول میں براجمان نہیں ہو سکتا۔
پانچ ایکٹر سے زائد زمین کے مالکان، پانچ لاکھ سے زائدبنک بیلنس رکھنے والے،ایک ذاتی مکان ،دکان سے زائد ملکیتی جائداد رکھنے والوں پر ہمہ قسم الیکشنی سیاست میں حصہ لینے کی پابندی عائد کی جائے تاکہ ان کا مخصوص کریہہ کردار ختم ہو کرسیاسی ٹھگوں ، لٹیروں دیمک کی طرح ملکی خزانہ کو چاٹنے والے قبضہ گروپوں سے مستقل جان چھوٹ جائے نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری۔اس طرح زمین پر اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے گا اوروہی کار مختاراور وہی اکیلا حکمران ہو گااور ہم تو اس کے آقائے نامدار محمد رسول اللہ ۖ کے بھیجے ہوئے قوانین پر عمل کرنے والے ہوں گے۔
جب تک ہم اللہ کو راضی نہیں کرتے اور سودی کاروبار کا مکمل بائیکاٹ کرکے اس سب سے بڑے گناہ سے توبہ و ا ستغفار نہیں کرتے خدا کی رحمت کے آنے کا دور دور تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔کہ تقدیر کے اصول اٹل ہیں جس زمین پر69دفعہ سگی ماں سے زنا کرنے سے بھی بڑا گناہ سودی لین دین کا کاروبار رکھنے والے دندناتے پھرتے رہیں گے اور غریبوں کے خون چوسنے کاعمل جاری رہے گا نیز غریب مائیںشیر خوار بچوں سمیت بھوک ننگ افلاس کی وجہ سے خود کشیاں کرتی رہیں گی۔ ر حمت کے فرشتے قطار اندر قطار تو کیاادھر کا رخ بھی نہیں کریں گے۔اور ہم قعر مزلت میںمزید گرتے چلے جائیں گے۔
اب تو جان لیوا زلزلوں اورسیلابوں کی طغیانی بھی ہمارے ہی علاقہ میں بڑھتی چلی جارہی ہے ۔کہ خدا اور اس کے رسولۖ کے خلاف جنگ جاری رکھ کر(یعنی پلید ترین سودی کاروبار)سے باز نہ رہنے کاکوئی دوسرا نتیجہ ممکن تک بھی نہ ہے۔ہم ہندوئوں کی چوکھٹ پر سجدہ ریزاور یہود و نصاریٰ اور عالمی دہشت گرد امریکہ کے تابعدار غلام ہی نہیں بلکہ ان دونوں کے تلوے چاٹنے پر فخر محسوس کرتے ہیں جبکہ بنیاء توکھلم کھلا فخریہ کہہ رہا ہے کہ ہم نے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کر ڈالا تھا۔ملک اورمقتدر سیاسی جماعتوںپر لوٹ کھسوٹ کرنے والے صنعتکاروں ،سود خور سرمایہ داروں ،ظالم و بد کردار وڈیروںاور نودولتیوں کا قبضہ ہے اور کرپٹ بیورو کریسی ان کی محافظ و حصہ دار ہے۔عدالتیں بقول مرحوم عالم دین آجکل بنیے کی دکان بنی ہوئی ہیںجہاں انصاف بغیر سرمایہ کے حاصل ہی نہیں کیا جاسکتا۔
جتنا بڑا ڈکیت اور کرپٹ اتنا ہی بڑاخوفناک اور قابل حکمران تصور کیا جاتا ہے۔ہندو بنیاسرحدی تو کیا آبی وملک کی اندرونی دہشت گردیوں میں بھی ملوث ہے۔اور خود بنگلہ دیش کو توڑنے کا اعتراف تو ان کے وزیر اعظم دہشت گردوں کے اصل آقا وزیر اعظم مودی نے کر ہی لیا ہے اب سوچنے کا نہ وقت ہے اور نہ اس کی ضرورت۔اپنی صفوں میںاتحادپیداکرکے فرقہ واریت،لسانیت ،علاقائیت جیسے بتوںکو توڑ کرخدا اور اس کے رسول کی رسالت پر کامل یقین اورختم نبوت پر ایمان رکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔ظالم جاگیر داروں ،بد کردار وڈیروں،لٹیرے صنعتکاروں ،سود خور نو دولتیوںسے نجات بذریعہ بیلٹ حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہو جائیں۔
قرآن مجید جیسی پاک کتاب کی سورة البقرة سے مستعار لیے گئے لفظ” گائے “پر مہریں لگا کر اللہ اکبر تحریک کے ادنیٰ کارکنوں کو اقتدار کی باگیں سنبھالنے کا موقع دیںتاکہ مکمل انصاف کے ذریعے ناجائزسرمایہ داریاں ختم ہوں جاگیریں جدی پشتینی مزارعین اوربے زمین نوجوانوں میں بانٹ دی جائیں اور ملک مکمل اسلامی فلاحی مملکت بن جائے۔
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری