counter easy hit

بھارتی آبی جارحیت پر اقبال چیمہ کی تحقیق اور تحریک

یوم یک جہتی کشمیر کے سلسلے میں میری ملاقات ایک محقق محمد اقبال چیمہ سے ہوئی، وہ پاکستان کے لئے دل درد مند کے مالک ہیں، اسی کے پیٹے میں ہیں، مگر جوانوں کی طرح پھرتیلا جسم اور ایک چاق و چوبند دماغ کے مالک۔ پیشے کے لحاط سے میکینیکل انجنیئر، ملازمت کے لحاظ سے ریٹائرڈ فوجی اور میرا ان کے ساتھ گنڈا سنگھ بارڈر کا رشتہ ہے، جہاں میں پیدا ہوا اور وہ اپنی پہلی فوجی ملازمت کے سلسلے میں فیروز پور ہیڈ ورکس کی حفاظت کے لئے متعین ہوئے، یہی وہ مقام ہے جس نے ان کی سوچ میں ایک انقلاب برپا کیا، بھارت کی کوشش تھی کہ وہ فیروز پور ہیڈورکس پر مکمل کنٹرول حاصل کر لے مگر اقبال چیمہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے آزادی کی پہلی شب ایک برق رفتار ایکشن کیا اور پاکستان کی چوکی ہیڈورکس کے پل کے درمیان میں قائم کر لی اس سے پاکستان کو دیپال پور نہر کا کنٹرول مل گیا۔ پانی کا یہ جھگڑا اقبال چیمہ کے دل ودماغ میں پیوست ہو گیا اور باقی عمر انہوں نے پاکستان کے خلاف بھارت کی آبی جارحیت کی تفصیلات اکٹھی کرنے اور ان کا حل سوچنے کے لئے وقف کر دی، اس عمر میں وہ شمس الملک اور چند دیگرآبی ماہرین کے اشتراک سے ایک تھنک ٹینک چلا رہے ہیں جو اس موضوع پر دھڑا دھڑ کتابیں تصنیف کر رہاہے، شمس الملک ایک محب وطن پاکستانی ہیںا ور ان کے ساتھیوں کی سوچ بھی ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہے۔
اقبال چیمہ کی کتاب ۔۔پاکستان کے توانائی کے وسائل ا ور پالیسیاں ۔۔۔(بزبان انگریزی) میرے سامنے ہے، دوسری کتاب جو انہوںنے عطیہ کی ہے وہ انجینیئر برکت علی لونا کی تحقیق کا نچوڑ ہے، ان کی کتاب کا عنوان (کالا باغ ڈیم، پاکستان کے لئے سونے کی کان) ہی ان کے دل کی آواز ہے۔ اس کتاب میں اردو کا استعمال ایک ہی جگہ کیا گیا ہے اور وہ بھی اس شعر کے لئے کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
انجینئر صاحب ورلڈ بینک کے ساتھ مشیر کی حیثیت سے وابستہ رہے ہیں۔یہ ورلڈ بنک ہی تھا جس نے بھارت اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس کا معاہدہ کرایا مگر یہ بات میںنہیں کر رہا بلکہ اقبال چیمہ نے مجھ پر واضح کی کہ ورلڈ بنک کا معاہدہ غیر منصفانہ ہے، پا نی کی تقسیم کے مسلمہ عالمی قوانین اور اصولوں کی رو سے کسی بھی دریا کو کسی ایک ملک کی ملکیت میںنہیں دیا جا سکتا اور زیریں علاقے میں واقع ملک یا ممالک کو بھی اس کا پانی استعمال کرنے کاپورا پورا حق حاصل ہوتا ہے، دریائے نیل ہو، ڈینیوب ہو، برہم پترا ہو، گنگا ہو یا جمنا، یا ایمیزون، ان کا پانی تمام ممالک کو لازمی طور پر دیا گیا ہے، مگر ستلج، بیاس اور راوی کو بھارتی ملکیت میں دے کر پاکستان کے ساتھ پہلی زیادتی کی گئی، اس معاہدے سے بھی پہلے بھارت نے ان دریاﺅں کا پانی روک دیا تھا جس پر نواب مظفر علی قزلباش کی زمینیں متاثر ہوئیں تو وہ سردار شوکت حیات کے ساتھ ایک وفد لے کر نہرو کے پاس گئے، نہرو نے کہا کہ پانی آپ کو دوں گا، قیمت وصول کر کے دوں گا مگر پہلے یہ لکھ دو کہ یہ دریا کلی طور پر بھارت کے ہیں، پاکستانی وفد نے ا س معاہدے پر دستخط کر دیئے، یہ تو اقوا م متحدہ کی مہربانی ہے کہ اس نے ا س معاہدے کوغیر اصولی ہونے کی بنا پر رجسٹر نہ کیا مگر یہی کام ورلڈ بنک نے بعد میں سندھ طاس معاہدے کے بھیس میں انجام دے دیا۔
آج پاکستان کلی طور پر پانی کے لئے بھارت کا دست نگر ہے۔ مودی کے عزائم واضح ہیں، کبھی وہ کہتا ہے کہ پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے، کبھی کہتا ہے کہ بھار ت کے پانی کی ایک بوند تک پاکستان کو نہیں ملے گی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ صرف خون بہانا چاہتا ہے۔ اور ساتھ ہی پاکستان کو بنجر، ریگستان اورصحرا میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔
میرے لئے ممکن نہیں کہ میں اقبال چیمہ اور انجینئر برکت علی لونا کی کتابوں پر ایک سرسری نظر بھی ڈال سکوں، قدرت مہربان ہو جائے تو مجھے یہ صلاحیت واپس مل سکتی ہے یا کوئی مصنوعی اور متبادل انتظام ہو جائے۔ سر دست تو جو کچھ گفتگو کے دوران یاد رہ گیا ہے،اس پر انحصار کرتے ہوئے بعض ضروری نکات قارئین تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں۔
چیمہ صاحب نے دکھی دل کے ساتھ کہا ہے کہ بھارت نے ورلڈ بنک کے معاہدے کی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور ا سکی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے حصے کے چناب ا ور جہلم کے پانی پر ساٹھ سے زیادہ بند تعمیر کر لئے ہیں اور ابھی یہ سلسلہ کہیں رکتا نظر نہیں آتا، ورلڈ بنک کا معاہدہ بھارت کو ان دریاﺅں کے پانی کے استعمال کا حق تو دیتا ہے مگر وہ بھارت کو اس امر کا پابند بھی ٹھہراتا ہے کہ پانی کے بہاﺅ میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے تاکہ پاکستان کی ضروریات پوری ہوتی رہیں۔ مگر بھارت کی ہٹ دھرمی دیکھئے کہ پاکستان کو مرالہ ہیڈ ورکس پر دس ہزار کیوسک پانی درکار ہے جو کم ہو کر صرف چار ہزار کیوسک رہ گیا ہے، اس سے پاکستان کی زراعت پر جو بجلی گری ہے اور کسانوں کی پسماندگی میں جس قدر اضافہ ہوا ہے، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔
اقبال چیمہ نے روشنی کی ایک کرن دکھائی ہے کہ اس وقت پاکستان کی واٹر سیکورٹی کی ضمانت صرف چین فراہم کر سکتا ہے اور چین نے کہہ بھی دیا ہے کہ اگر بھارت نے پاکستان کو اس کے حصے کے جائز پانی سے محروم رکھا تو وہ دریائے برہم پترا کا پانی روک لے گا، پاکستان اور بھارت کے درمیان تو پھر بھی ورلڈ بنک کی وساطت سے ایک معاہدہ موجود ہے مگر بھارت اور چین کے درمیان پانی کے استعمال کے سلسلے میں کوئی معاہدہ موجود نہیں اور چین اس دریا کے پانی کو مکمل طور پر کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں ہے اور بھارت اس خطرے کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ جبکہ پاکستان آنکھیں بندکر کے چین پر اعتماد کر سکتا ہے جس نے سی پیک کے پراجیکٹ کے ذریعے ہمیں مالا مال کر دیا ہے۔
سی پیک کی بات چھڑی تو میںنے پوچھا کہ چیمہ صاحب! اپنے تجربے کی رو سے یہ تو بتایئے کہ کیاموجودہ حکومت بلکہ شریف برادران اپنے وعدوںکے مطابق بجلی کے منصوبے چالو کر سکیں گے۔
جواب ملا، کہ بالکل کر لیں گے، کئی منصوبے تو چالو ہو چکے ہیں اور باقی بھی اگلے سال مئی سے پہلے پہلے بجلی کی پیداوار شروع کر دیں گے مگر بجلی بنا لینا ایک کام ہے ا ور بجلی کی ترسیل ،دوسرا کام ہے جو جان جوکھوں کا کام ہے، بجلی ملکی ضروریات سے زیادہ ہو گی لیکن ٹرانسمشن سسٹم نہ ہونے کے باعث ملک بھر میں اس کی فراہمی ممکن نہیں ہو گی۔ پھر بھی لوڈ شیڈنگ کی موجودہ قیامت سے نجات مل جائے گی۔
میرا خیال ہے کہ اس خوش کن اور دلکش تصویر کے ساتھ بات ختم کرتا ہوں مگر قارئین میں سے جو اصحاب پاکستان کی آبی اور توانائی کے مسائل سے دلچسپی رکھتے ہوں اور وہ خلوص کے ساتھ اس تحریک کا حصہ بننے کے خواہاں ہوں کہ پاکستان کے خلاف بھارت کی آبی جارحیت کونمایاں کیا جائے اور اس کا توڑ تلاش کرنے پر توجہ دی جائے تو میرے مرشد مجید نظامی کی جدوجہد کی تکمیل کےلئے چیمہ صاحب کے شانہ بشانہ کام کریں، چیمہ صاحب کو ان نوجوانوں کی ا شد ضرورت ہے جو نظریہ پاکستان پر ایمان رکھتے ہوں اور بھارت کی حشر سامانی سے وطن عزیز کو بچانے کے لئے کمر بستہ ہونے کے شوق سے لبریز ہوں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website