تحریر : خان فہد خان
حضرت علامہ محمد اقبال ایک ایسی ہستی کا نام ہے جن کو کبھی مفکر اسلام توکبھی مفسر قرآن ،کبھی مرد مومن تو کبھی مرد قلندر ،کبھی شاعر مشرق تو کبھی حکیم الاُمت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ علامہ صاحب کے مختصر کلام انسان کے دل میں سرائیت کر جاتے ہیں اور یہ پیام پیام حیات ہیں۔ انہوں نے اپنے کلام سے متحدہ ہندوستان میں تحریک آزادی میں ایک اہم کردار ادا کیا ۔انہوں نے ایک پست ہمت ،مردہ دل قوم کو حوصلہ مندی اور خود اعتمادی کا کیا خوب درس دیا ۔علامہ صاحب کا کیا خوب انداز بیاں ہے۔
غلامی میں نہ کا م آتی ہیں شمشیریں،نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
ایک مردہ جذبات و احساسات کو اس سے بہتر انداز میں کون جگا سکتا ہے۔اس طرح کے ولولہ انگیز اشعار سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔علامہ اقبال صاحب شاعر انقلاب تھے جو الفاظ کی دل نشینی اور معانی جگر تابی سے غلاموں کو آزاد کرانا چاہتے تھے ۔وہ ایک رہبر تھے اورمسلم قوم کو مغرب کی فریب کاریوں سے بچا نا چاہتے تھے ۔علامہ صاحب نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمان قوم کو متحد کیا اور ان میں احساس آزادی بیدار کیا۔انہوں نے جو خواب دیکھا تھا بد قسمتی سے ان کے عر صہ حیات میںاس کی تعبیر نہ ہوئی مگر ان کی پیدا کردہ ایک لگن اور جذبے سے پاکستان جیسے خواب کو تعبیر مل ہی گئی ۔علامہ اقبال محسن پاکستان ہیں اس لحاظ ہر سال 09نومبرکو یوم ولادت علامہ اقبال بڑے احترام سے منا یا جاتا ہے۔
اس حوالے سے ہر سال حکومت پاکستان کی جانب سے ملک بھر میںعام تعطیل کر دی جاتی تھی ۔پاکستانی اس سال بھی یوم اقبال پرچھٹی کی اُمید لگا ئے بیٹھے تھے بہت بڑے بڑے پلان بنائے ہوئے تھے چھٹی انجوائے کرنے کے لیکن اس سال اس روایت کو توڑ دیا گیا اور حکومت پاکستان نے چھٹی منسوخ کر دی عوام نے حکومتی فیصلے کو نا پسند کیا ہے۔جس پر بھر پور عوامی رد عمل دیکھنے میں آ رہا ہے ۔کوئی کہتا ہے کہ جی یوم اقبال تو نہیں اب یو م نواز منا یا جائے گا تو کوئی اس کو اقبال کے نام مٹانے کی سازش کہہ رہا ہے ۔ ایسی باتیں کر نے والے بھی کمال کی سوچ رکھتے ہیں یعنی چھٹی ہو جاتی تو اقبال ڈے ہوتا اگر چھٹی منسوخ ہو ئی تو کیا اقبال ڈے نہیں ہوگا۔میرے ذہین میں پھرچند ایک سوال ہیں قارئین آپ بھی بتائیںکہ کیا چھٹی کی منسوخی سے علامہ اقبال کا نام مٹ جائے گا کیا ان کے نام کو کوئی فرق آئے گاکیا ان کا نام ایک سالانہ چھٹی کی وجہ سے قائم ہے جو چھٹی ختم ہونے پر مٹ جائے گا۔
ہاں چھٹی کے خاتمے سے کم ظرف لوگ ہی اقبال کو بھول جائیں گے لیکن جو علا مہ صاحب کا کلام پڑھ چکے ہیں جو تاریخ میں ان کے کردار کو سمجھ سکے ہیں وہ کیسے بھُلا سکتے ہیں۔مسلمانوں اور پاکستان کے تاریخ ہزاروں ہیروز سے بھری پڑی ہے کیا سب کے یوم ولادت اور یوم وفات پر چھٹی کی جائے تو سارا سال ہی ہم گھر بیٹھے رہیں۔یہ صرف حکومتوں کی نااہلی ہے جو ہریوم اقبال پر چھٹی کر کے سمجھتی ہے کہ ہم نے اپنے ہیروز کے ساتھ محبت کا اظہار کیا یا ان کا نام زندہ رکھنے کی کوشش کی۔
کیا ہماری آنے والی نسلوں کو 9 نومبر کی چھٹی سے علامہ اقبال کے بارے میں جاننے کا موقع ملے گا؟ ہر گز نہیں جب تک سکولوں ،کالجوں میں علامہ اقبال کے بارے میں تقاریب نہ ہونگی،علامہ صاحب کا کلام ان کو پڑھ کے نہ سنایا جائے گا وہ نا واقف ہی رہیں گے۔ حقیقی معنوں میں یوم اقبال اس طرح منایا جائے کہ ہر سال 9 نومبر کو دن بھر اقبال کی محفلیں قائم کی جائیں ان کام و کلام پر روشنی ڈالی جائے،سکولوں ، کالجوں، یونیورسٹیوں میں تقریری، تحریری مقابلہ جات کرائے جائیں۔ ان کی مغفرت اورایصال ثواب اور درجات کی بلندی کیلئے دعائیہ تقاریب منقعدہو۔
رات انکی یاد میں شمع روشن کی جائیں اور ہم اقبال کے کلام کو پڑھیں، سمجھیں اورر ہنمائی حاصل کریں ۔مگر ہماری حکومتیں چھٹی کر کے سارا فکر ہی ختم کر دیتی ہیں بلکہ ملکی معشیت کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ لیکن اس سال حکومت نے جو فیصلہ کیا ہے میں حکومتی فیصلے کی حمایت کرتا ہوںاصل میں حکومت کو کبھی بھی اس طرح کے قومی دنوں پرسر کاری چھٹی نہیں کر نی چاہیے بلکہ اس دن کو سرکاری سطح پر منا نا چاہیے چھٹی کر کے نہیں بلکہ اس سلسلہ میں تقاریب اور محافل کا انعقاد کر کے میرے خیال میں اقبال ڈے منانے کا یہی بہترین طریقہ ہے چاہے آپ کی رائے جو بھی ہو۔
تحریر : خان فہد خان