تحریر : عارف محمود کسانہ
دنیائے صحافت کی دو عظیم شخصیات کے مابین گذشتہ دنوں ایک عجیب سی بحث چھڑی ہوئی تھی۔ ایک کا کہنا ہے کہ علامہ اقبال نہ تو شاعر مشرق تھے اور نہ ہی کوئی قومی شاعر ہیں بلکہ وہ صرف ایک مقامی شاعر تھے اور اُن کا پیغام اب فرسودہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے جو کہا وہ ان کے دور تک درست تھا مگر اب وہ تھیسسز آئوٹ ڈیٹیڈ ہو چکا ہے۔ جبکہ اس کا جواب دیتے ہوئے ایک بہت معروف کالم نگار نے کہا ہے کہ اقبال صرف پاکستان کے ہی نہیں بلکہ ایران، تاجکستان اور ترکستان میں بھی انہیں قومی شاعر تسلیم کیا جاتا ہے ۔بھارت میں اُن کی شاعری پر بہت کام ہورہا ہے بلکہ دنیا بھر میں اُن کی شاعری کی دھوم ہے اور وہ بلا شبہ شاعر مشرق ہیں۔
میرا ان دونوں شخصیات سے اختلاف ہے بلکہ میں کیا خود علامہ اقبال کا بھی یہی موقف ہے۔ علامہ اقبال کے بارے میں ایسی رائے رکھنے والوں کو اصل میں غلط فہمی اس لیے ہوتی ہے کہ انہوں نے اقبال کے چند اشعار سنے ہوتے ہیں لیکن وہ فکر اقبال سے ناشنا ہوتے ہیں۔ اقبال شاعر تھے ہی نہیں ، اس لیے اُن کے مقام و مرتبہ کو شاعری کے پیمانے سے ماپنا درست نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ انہوں نے شاعری کو اپنے پیغام کا ذریعہ بنایا مگر اس میں اورشاعرانہ ذہنیت میں بہت فرق ہے۔ قرآن نے شاعری کو ایک ذہنیت قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے جس کا کوئی نصب العین نہیں ہوتا ۔قابل مذمت اسلوب بیان نہیں بلکہ ذہنیت ہے۔ اصل اہمیت پیغام کی ہوتی ہے اسلوب بیان چاہے کوئی سا بھی کیوں نہ ہو۔ اگر کوئی حقائق اور سچ کی بات کے اظہار کے لیے شاعری کو ذریعہ بنائے وہ قابل گرفت نہیںہوتا۔
قابل اعتراض پیغام اور انداز فکر ہوتا ہے ۔شاعرایک وقت میں ہجر و فراق کی بات کررہے ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی وصل کی لذت سے بھی محظوظ ہورہے ہوتے ہیں۔ اُن کے ذہن کی اڑان ہوتی ہے کہ کبھی گل و بلبل کے قصے کبھی محبوب کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے اورہجوپہ آجائیں تو رقیب کو روسیا قرار دے دیں۔ اسی شاعرانہ طرز عمل کے بارے میں علامہ ا قبال نے کہا کہ شاعر کی نوا مردہ و افسرد ہ و بے ذوق افکار میں سرمت نہ خوابیدہ نہ بیدار۔
علامہ نے تو شاعری ترک کردی تھی مگر اپنے استاد سر آرنلڈ اور قریبی دوست شیخ عبدالقادر کے کہنے پر دوبارہ شاعری کو ذریعہ پیغام بنایا۔ انہوں نے خود کہا کہ میری شاعری سے کوئی تعلق نہیں میں نے تو اسے صرف اپنے پیغام کا ذریعہ بنایا ہے وہ کہتے ہیں کہ نغمہ کجا و من کجا ! ساز سخن بہانہ است سوئے قطار می کشم ناقہ بے زمام را جو انہیں شاعر کہتے تھے انہیں وہ جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ میرے پیغام پر غور کریں اور اسے روایتی شاعری پر معمول نہ کریں ۔ بال جبریل میں وہ لکھتے ہیں کہ میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرم راز درون مے خانہ علامہ درد دل سے شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو میں کہا ہے اس پر تم غور نہیں کرتے بلکہ اس مجھ پر شاعر ہونے کی تہمت لگا دیتے ہو اور انہوں نے بہت ہی سخت بات کہہ دی کہ
نہ پنداری کہ من بیی بادہ مستم مثال شاعران افسانہ بستم
نہ بینی خیر از ان مرد فرودست کہ بر من تہمت شعرو سخن بست۔
ہم انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے شاعر مشرق قرار دیتے ہیں لیکن اقبال چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ میں شاعر نہیں ہوں۔ وہ بارگاہ رسالتۖ میں شکایت کرتے ہیں کہ من اے میر امم داداز تو خواہم مرا یاراں غزل خوائے شمر دند وہ کہتے یہ ہیں کہ اے میرے اور ساری کائنات کے آقا! میں آپ کی خدمت میںیہ فریاد لے کر حاضر ہوا ہوں کہ میں نے تو اپنی قوم کو آپۖ کا پیغام سنایا لیکن میری قوم نے مجھے محض ایک شاعر سمجھا۔وہ مثنوی اسرارو رموز میں مزید عرض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر میرے پیغام میں قرآن کے سوا کچھ اور ہے تو روز محشر مجھے سب کے سامنے رسوا کیا جائے پردہ ناموس فکرم چاک کن ایں خیاباں راز خارم پاک کن یہی نہیں بلکہ مجھے حضور کے قدموں کے بوسے سے بھی محروم کردیا جائے۔
روز محشر خوار و رسوا کن مرا بے نصیب از بوسہ پاکن مرا فکر اقبال کا تھیسز آئوٹ ڈیٹیڈکیسے ہوسکتا ہے کیونکہ اس کا منبع قرآن ہے۔وہ عشق مصطفےٰ کا پیغام ہے۔ وہ ہر دور کے لیے قابل عمل رہے گا۔ اقبال نے تو اپنے پیغام کو فردا قرار دیتے ہوئے آنے والے دور کا پیغام قرار دیاہے اقبال کا اصل مقام پیامبر قرآن کا ہے ۔ وہ حکیم الامت تھے اور جن لوگوں نے اُن کی فارسی شاعری، خطبات اور باقی کلام کو غور سے پڑھا ہے وہ اقبال کو یہی مقام دیتے ہیں۔آج پوری دنیامیں اقبال کے کروڑوں چاہنے والے اُس کی اس دعا کی قبولیت ثبوت ہے جو اس نے بارگاہ ایزدی میں کی تھی کہ خدایا آرزو میری یہی ہے میرا نور بصیرت عام کردے۔
تحریر : عارف محمود کسانہ