19 ویں صدی کے اختتام پر مغلوں کے زیرِ استعمال رہنے والے زرق برق لباس اب صرف اپنے گزرے وقتوں کی شان و شوکت کی کہانیاں بیان کرتے تھے۔
اس وقت نواب مرزا داغ دہلوی نو آموز شعراء کی اصلاح و تربیت کے لیے ایک محکمہء شاعری چلاتے تھے، جس پر اس وقت کے نظامِ حیدرآباد میر محبوب علی خان کی خصوصی نظرِ کرم تھی۔
داغ استاد شاعر تھے اور محکمہ اس لیے قائم کیا گیا تھا تاکہ وہ ملک بھر کے شعراء سے ان کے خوبصورت تخیلات کے حوالے سے رابطے میں رہ سکیں۔ یہ شعراء انہیں اشعار لکھ بھیجتے تھے اور داغ انہیں محتاط انداز میں تصحیح کر کے واپس بھیجتے تھے۔ استاد خود ایک غزل گو شاعر تھے، اور اپنے سامنے موجود کام، یعنی اس زمانے کے شاعرانہ بیانیے کی تخلیق، کو سنجیدگی سے برت رہے تھے۔
ایک دن انہیں ایک عام گھرانے سے تعلق مگر بلند سوچ رکھنے والے محمد اقبال نامی نوجوان نے اپنی نظم تصحیح کے لیے بھیجی۔ یہ رابطہ زیادہ طویل ثابت نہیں ہوا کیونکہ داغ نے جلد ہی اس نوجوان کو مطلع کر دیا کہ ان کی شاعری میں تصحیح کی گنجائش بہت کم ہے لہٰذا وہ زیادہ اصلاح نہیں کر سکتے۔
آج ہمارے زمانے میں شاعروں کی قلت ہے، مگر اس وقت ایک محکمہء شاعری کی موجودگی اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ اشعار اور اشعار کو تخلیق کرنے والے دنیا میں کس قدر ممتاز تھے۔
1892 میں جب اقبال نے اپنا کالج مکمل کیا تو ان کے والدین نے ان کی شادی ایک دولتمند ڈاکٹر کی بیٹی کریم بی بی سے کر دی۔ متوسط طبقے کی شادیوں میں شریکِ حیات کے انتخاب سے بہت لوگوں کا بہتر مستقبل جڑا ہوتا تھا، اور طبقاتی تقسیم میں آپ ایک شادی سے فوراً اوپر بڑھ سکتے تھے۔ اس میں نہ ہی ہم آہنگی کا سوال زیرِ غور آتا، نہ ہی آزادی کا، اور نہ ہی ذمہ داریوں سے بھاگنے کا۔
مگر اقبال اس شادی سے کتنے غیر مطمئن تھے، اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا۔
کریم بی بی اور محمد اقبال تقریباً دو دہائیوں تک نسبتاً ہم آہنگی کے ساتھ رہے۔ یہ رشتہ ایک بیمار بچے اور رشتے داروں کی وجہ سے جڑا رہا جنہیں لگتا تھا کہ اس رشتے کے قائم رہنے میں ہی سب کا بھلا ہے۔
ہندوستان سے اپنی روانگی کے وقت محمد اقبال نے ہندوؤں اور مسلمانوں، دونوں کو ہی ان کی تنگ نظری پر تنقید کا نشانہ بنایا، اور پھر 1905 میں یورپ چلے گئے۔
وہاں عطیہ فیضی نے اقبال کو گومگو کی حالت میں ڈال دیا۔ تعلیم یافتہ اور جدید خیالات رکھنے والی عطیہ فیضی تصوراتی برِصغیر کا عملی پیکر تھیں۔
جب ان کی ملاقات ہوئی، تو ٹیچرز ٹریننگ کالج لندن میں ان کے وقت کے دوران ان کا لکھا گیا سفرنامہ شائع ہو چکا تھا۔ اقبال نے ان کا کام پڑھا تھا، لہٰذا وہ ان سے ملنے چلے گئے۔
یہ لوگ کیمبرج کی اور پھر ہائیڈل برگ میں باتیں اور چہل قدمی کرتے، اور اسی دوران ان کے بیچ ایسی دانشورانہ قربت قائم ہوئی جس کا اقبال نے کبھی تجربہ نہیں کیا تھا۔ عطیہ فیضی نے اقبال کو اجنبیت کے احساس سے نکالا جس میں وہ ایک برِاعظم سے دوسرے میں آنے پر، مضافات سے شہر میں آنے پر، اور سیالکوٹ سے کیمبرج آنے پر گھرے ہوئے تھے۔
اس سے پہلے وہ صرف سمجھوتے کو جانتے تھے، مگر اب انہوں نے ہم آہنگی، ذہنوں کے ملنے، اور محبت کی شروعات کو بھی جانا۔
وہ یورپ میں ہمیشہ نہیں رہنے والے تھے، مگر کسی اور چیز کے تصور نے اقبال کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ 1908 میں وہ ہندوستان واپس لوٹے اور اپنی انتظار کر رہی اہلیہ کریم بی بی اور اپنے درمیان فاصلے کو محسوس کیا۔
فرض اور خواہش کے درمیان تنازع تب زیادہ محسوس ہوا جب انہوں نے عطیہ کو لکھا: “میں نے اپنے والد کو خط لکھا ہے کہ انہیں میری شادی کرنے کا کوئی حق نہیں تھا خاص طور پر تب جب میں ایسے کسی رشتے کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا؛ میں اس کا خیال رکھنے پر تیار ہوں مگر میں اسے اپنے ساتھ رکھ کر اپنی زندگی مشکل نہیں بنانا چاہتا۔”
اقبال ہمیشہ ایک خاتون اور دوسری، افسوس اور خوشی، ہندوستان اور انگلستان کے درمیان معلق رہے۔
“ایک انسان کے طور پر خوش رہنا میرا حق ہے،” انہوں نے لکھا، مگر ایک مرد کے طور پر وہ کبھی اس کا انتخاب نہیں کر پائے۔ انہوں نے اپنی بیگم سے علیحدگی اختیار کر لی اور عطیہ کو بھی کبھی شادی کی پیشکش نہیں کی۔
اقبال کی وفات کے تقریباً 10 سال بعد 1947 میں عطیہ نے معاشرتی پابندیوں اور آرٹسٹس کی کامیابیوں کے بارے میں ایک تبصرہ لکھا۔ انہوں نے لکھا کہ “ہندوستان میں ایک فرد کو اپنے خاندان کی خواہشات اور احکامات کے آگے جھکنا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے کئی مردوں اور عورتوں نے، بھلے ہی وہ بے پناہ دانشورانہ صلاحیتوں سے مالامال تھے، اپنی زندگی تباہ کر لی۔”
انہوں نے اسی پیمانے پر پرکھتے ہوئے اقبال کی زندگی کو ایک “بے رحم حادثہ” قرار دیا جس میں طرح طرح کے موڑ صرف ان کے خاندان کی خواہشات کے وجہ سے آئے۔
اپنی محبت اور اپنی زندگی کو الگ رکھنے پر مجبور ہوجانے والا اقبال، کسی پابندی کو خاطر میں نہ لانے والا اقبال جنہیں وہ ابتدائی چند سالوں میں جانتی تھیں، فرض اور توقعات کے بیچ میں کہیں قربان ہو گیا تھا۔ ایک دانشور کے ساتھ ہونے والے اس واقعے پر لکھتے ہوئے انہوں نے ان کے نظریے پر بننے والے ملک کے نام پر پیغام دیا:
“اس سے پہلے کہ آپ نوجوانوں کی زندگی میں دخل دیں، اس خطرے سے خبردار ہوجائیں کہ ایک قوم تب تک سکون اور اطمینان نہیں پا سکتی جب تک کہ اس کا فرد سکون اور اطمینان نہیں پا لیتا۔”