تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ
1979 ء کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران اور امریکہ و دیگر مغربی ممالک میں شدید کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ بھی باہمی تعلقات میں بہتری نہیں آ سکی تھی۔ بداعتمادی اور تصادم کی اس فضا میں ایران نے جوہری پروگرام کو فروغ دینا شروع کیا۔ اس طرح امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی طرف سے ایران کے خلاف پابندیاں لگانے اور اسے سیاسی و سفارتی تنہائی کا شکار کرنے کے لئے اقدامات کا آغاز ہؤا۔ البتہ صدر باراک اوباما نے ایران کے ساتھ تصادم کی بجائے مصالحت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح دو برس قبل ایران اور سلامتی کونسل کے 5 مستقل ارکان امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایران کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا۔
سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزین میں طے پانے والا یہ معاہدہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ہے۔ امریکہ اور اس کے علاقائی حلیف اسرائیل اور سعودی عرب کا خیال تھا کہ ایران ایٹمی پروگرام کے ذریعے بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرنا چاہتا تھا جو پوری دنیا کے امن کے لئے خطرناک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم ایران نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ اس کا پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے۔ لیکن اس پروگرام کے کنٹرول کے حوالے سے ایران اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے درمیان اختلافات موجود رہے تھے۔ ایجنسی کے نمائندوں نے متعدد بار ایران کے پروگرام اور ارادوں کے بارے میں شبہات کا اظہار کیا تھا۔ چندروز قبل ایران اور دنیا کی چھ بڑی طاقتوں کے درمیان طے پانے والا معاہدہ پوری دنیا کی سلامتی اور پرامن مستقبل کے لئے ایک خوشگوار پیش رفت ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بجا طور پر اسے ایک ”بڑا دن” قرار دیا ہے۔ ایران کے عوام نے سڑکوں میں نکل کر اور جشن منا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔
ان دو برسوں میں اگرچہ پیش رفت کی خبریں آتی رہی ہیں لیکن باہمی شدید اختلافات اور بداعتمادی کی فضا کی وجہ سے بات چیت جاری رکھنا آسان نہیں تھا۔ اس کے علاوہ امریکہ کے قریب ترین حلیف اسرائیل اور سعودی عرب نے ایران کے ساتھ کسی بھی قسم کے معاہدہ کی شدید مخالفت کی تھی۔ ان دونوں ملکوں کا خیال ہے کہ ایران پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ اس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں انتہاپسندی کو فروغ مل رہا ہے۔ ایران نے 80کی دہائی میں لبنان میں شیعہ تنظیم حزب اللہ کی سرپرستی کا آغاز کیا تھا۔ یہ تنظیم علاقے میں اسرائیلی تسلط اور فلسطین کو مسلسل زیرنگیں رکھنے کی پالیسیوں کے خلاف ہے۔ 2006 میں حزب اللہ اور اسرائیل میں جنگ بھی ہوئی تھی جس میں اسرائیل کو ہزیمت اٹھانا پڑی تھی۔ اس لئے اسرائیل مسلسل ایران کے ساتھ کسی بھی قسم کی مصالحت کا شدید مخالف رہا ہے۔
اگر ایران ان شرائط کو پورا کرتا ہے تو امریکہ اور یورپ ایران پر سے وہ ساری پابندیاں ہٹا لیں گے جو ایٹمی پروگرام کی حوصلہ شکنی کے لئے عائد کی گئی ہیں۔ لوزین میں بات چیت کے دوران سب سے اہم اور متنازعہ مسئلہ بھی یہی تھا کہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی IAEA کو ایران کتنی دسترس دے گا اور اس کے بدلے میں امریکہ اور مغرب کتنی اور کس قدرتیزی سے اقتصادی پابندیاں نرم کریں گے۔ ایران اس کنٹرول پر متفق ہو گیا ہے۔ اسی لئے امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ اعتماد کی بنیاد پر نہیں بلکہ زمینی صورتحال کے کنٹرول اور معائنہ کے بنیاد پر طے ہوا ہے۔ صدر باراک اوباما نے اسے تاریخی معاہدہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر عملدرآمد سے دنیا زیادہ محفوظ ہو جائے گی۔
اگرچہ اصولی طور پر امریکہ یا دنیا کے کسی ملک کو خود ایٹمی ہتھیار رکھتے ہوئے دوسروں کو ایسا کرنے سے منع کرنے کا کوئی حق و اختیار نہیں ہے اور نہ ہی یہ بات قابل فہم ہے کہ یہی امریکہ اور اس کے حلیف اسرائیل کے ایٹمی پروگرام پر کوئی حرفِ شکایت زبان پر نہیں لاتے۔ لیکن ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اس ملک کے خلاف دو دہائی سے شدید مہم چلائی گئی تھی۔ تاہم یہ صورت حال دنیا میں طاقت کے عدم توازن کی وجہ سے پیدا ہونے والی ایسی سچائی ہے، جس سے اختلاف کے باوجود انکار ممکن نہیں ہے۔
ایران نے اس حقیقت حال کو قبول کر کے درست فیصلہ کیا ہے۔ ابتدائی سیاسی معاہدہ کی روشنی میں 30جون تک تفصیلی تکنیکی معاہدہ طے کیا جائے گا۔ ان تفصیلات میں یہ طے ہوگا کہ ایران کتنی تیزی سے معاہدہ کے مطابق اپنے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرتا ہے اور عالمی معائنہ کاروں کو ایٹمی پلانٹس پر دسترس دیتا ہے۔ اس طرح یہ تفصیل بھی طے ہو گی کہ ایران پر عائد پابندیاں کس طرح نرم کی جاتی ہیں۔ اس دوران کئی طرح کی مشکلات سامنے آ سکتی ہیں لیکن امید کی جانی چاہئے کہ ایران اور امریکی قیادت حتمی معاہدہ تک ہر رکاوٹ کو عبور کرنے کی کوشش کرے گی۔ یہودی لابی کے زیراثر امریکہ کی ری پبلکن پارٹی اس سوال پر اسرائیل کی پرزور حمایت بھی کر رہی ہے۔ اس پارٹی کو کانگریس میں اکثریت حاصل ہونے کے بعد یہ اعلان کیا گیا ہے کہ ایران کے ساتھ مصالحت کا کوئی معاہدہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ امریکی صدر باراک اوباما نے البتہ یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے معاہدہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اگست 2013 میں نئے ایرانی صدر حسن روحانی کے برسراقتدار آنے کے بعد اس معاہدہ کے حوالے سے نئی امید پیدا ہو گئی تھی۔ حسن روحانی ایران کی سفارتی تنہائی ختم کر کے ملک پر عائد سخت اقتصادی پابندیاں ختم کروانا چاہتے تھے۔
عالمی مبصرین اور میڈیاکے مطابق اسرائیل کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کہ ایران معاہدے کے باوجود خفیہ پروگرام جاری رکھے گا۔ درحقیقت اس معاہدہ کے بعد ایران اور دنیا کے درمیان خلیج کم ہو گی۔ اس طرح مشرق وسطیٰ میں سکیورٹی کے حوالے سے ابتر صورت حال کو بہتر کرنے کے لئے راستہ ہموار ہو سکے گا۔ اس وقت دنیا کو اصل خطرہ اس بات سے ہے کہ عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے نام سے خطرناک دہشت گرد گروہ طاقت پکڑ رہا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے والے ملک اپنے اپنے مفاد کی جنگ میں ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔ ایک طرف سعودی عرب ایران یا شیعہ رسوخ سے خوفزدہ ہو کر جنگ جوئی پر اْترا ہوا ہے تو دوسری طرف ایران خطے کی شیعہ آبادی کو مدد اورکمک فراہم کر کے صورتحال کو خراب کر رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان حالات میں اگر دنیا کی بڑی طاقتیں ایران کے ساتھ اعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو ان پیچیدہ اور گنجلک مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے کوششوں کا آغاز ہو سکتا ہے۔ ایران کے ساتھ طے پانے والا ایٹمی معاہدہ اعتماد سازی کی طرف اہم قدم ثابت ہو گا۔ اس نئی صورت حال کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کی روک تھام کے لئے استعمال کیا جا سکے گا۔
تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ