تحریر : مسز جمشید خاکوانی
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ فیڈریکاموگیرانی نے ویانا میں ایران پر عائد پابندیاں اٹھانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ،ایران نے جوہری معاہدے کے حوالے سے اپنے وعدے پورے کر دیئے ہیں دوسری جانب جوہری توانائی کے نگراں ادارے (آئی اے ای اے) نے ایک سال قبل طے پائے جوہری تنازع پر سمجھوتے کے حوالے سے ایران کے اقدامات کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تہران نے جوہری معاہدے پر عملدرآمد کے لیئے تمام ضروری اقدامات پورے کیئے ہیں جس کے بعد اس پر عائد بین ا لقوامی پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ فیڈریکاموگیرانی نے ویانا میں ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے سے علاقائی امن و استحکام میں اضافہ ہوگا ۔انہوں نے کہا آج ہم ایران کے جوہری معاہدے پر عمل درآمد کو جامع اوروسیع تر انداز میں آگے بڑھانے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں ۔آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ اس کے انسپکٹروں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران نے اس حوالے سے تمام مطلوبہ اقدامات مکمل کر لیے ہیں۔
آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا تھا آج کا دن بین القوامی برادری کے لیے بہت اہم ہے اس کے بعد یورپی یونین نے ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں مکمل طور پر اٹھانے کا اعلان کیا ۔خیال رہے کہ ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام پر گذشتہ برس جولائی میں معاہدہ طے پایا تھا جس کا مقصد ایران کی جوہر ی ہتھیار بنانے کی صلاحیت کو ختم کرنا تھا آئی اے ای اے کی جانب سے ایران پر عائد بین الاقوامیپابندیوں کے خاتمے کے اعلان پر ایرانی صدر حسن روحانی نے قوم کو مبارک باد دی ہے ایران پر پابندیاں ختم ہونے کے بعد وہ اربوں ڈالر مالیت کے منجمد اثاثے حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی منڈیوں میں تیل بھی فروخت کر سکے گا ۔یاد رہے کہ تہران پر عائد بین الاقوامی ،امریکی اور یورپی پابندیوں کی طویل تاریخ ہے اقوام متحدہ نے ایران پر پابندیوں کا آغاذ اس کے نیو کلیئر پروگرام کے سبب 2006میں ایٹمی لوازمات کی درآمد پر پابندی لگا کر کیا 2007 میں بین البرعظمی میزائل نظام پر پابندیاں عائد کی گئیں۔
2008میں ایرانی بینکنگ نظام پر مالیاتی پابندیاں عائد کی گئیں 2010 میں تہران کو اسلحے کی فروخت پر پابندی عائد کی گئی اس کے علاوہ ایرانی جہازرانی کی کمپنیوں اور ایرانی پاسداران انقلاب کے زیر انتظام کمپنیوں کو بلیک لسٹ کر دیا گیا جہاں تک ایرانی پابندیوں کے ساتھ امریکی تاریخ کا تعلق ہے تو وہ ایرانی انقلاب کے آغاذ کے ساتھ جا کر ملتی ہے جب 1979میں تہران میں امریکی سفارت خانے پر دھاوے کے نتیجے میں عملے کو یرغمال بنا لیا گیا پھر اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے تمام ایرانی اثاثے منجمد کرنے کا اعلان کر دیا 1995میں صدر بل کلنٹن نے امریکی کمپنیوں کو ایرانی تیل اور گیس میں سرمایہ کاری سے روک دیا اسی سال کانگریس نے ایران کے ساتھ معاملات کرنے والی بین الا قوامی کمپنیوں کے لیے سزا کا بل منظور کیا 2007میں امریکی کمپنیوں کا دائرہ کار بینکنگ سیکٹر تک پہنچ گیا اور 2010 میں کانگریس نے توانائی اور بینکنگ دونوں سیکٹروں پر پابندی کا فیصلہ جاری کیا
2011میں امریکی پابندیوں نے بڑھکر ایرانی پاسداران انقلاب کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا رہی بات یورپی یونین کی تہران کے خلاف پابندیوں کی تو ان کا آغاذ 2010میں ہوا پھر 2011میں ان میں توسیع ہوئی اور ایرانی پاسداران انقلاب کے زیر انتظام کمپنیوں کے ساتھ ساتھ 180 ایسے اداروں اور شخصیات کو بھی شامل کر لیا گیا جن کے بارے میں خیال تھا کہ ان کا ایرانی نیو کلیئر پروگرام سے تعلق ہے امریکی سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ انہوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام پہ روک لگا کر بڑی فتح حاصل کی ہے تاہم امریکہ کے اندر بھی اس طرح کی آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں کہ اس معاہدے میں بہت سے خلا پائے جاتے ہیں اور عالمی برادری میں ایران کی واپسی خطرات سے گھری ہوئی ہو سکتی ہے ۔عالمی توانائی ایجنسی آئی اے ای اے کی جانب سے ایران کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دینے پر امریکہ نے بھی مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے امریکی صدر باراک اوبامہ نے ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے ایران پر عائد تمام اقتصادی پابندیاں فی الفور اٹھانے کا حکم جاری کیا ہے۔
صدر اوبامہ کا کہنا ہے کہ تہران کی جانب سے تمام ضروری شرائط پر عمل دراآمد کے بعد معاہدے کو حتمی شکل دینے میں کوئی امر مانع نہیں ادھر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی ایران پر امریکہ کی جانب سے عائد پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا ہے امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پوری دنیا اور خصوصاً مشرق وسطی میں ہم اور ہمارے اتحادی محفوظ ہو گئے ہیں برطانیہ اور فرانس نے بھی ایران کے ساتھ طے پائے سمجھوتے کو عملی شکل دینے کو تایخی قرار دیا ہے برطانوی وزیر خارجہ فلپ بیمونڈ نے ہفتے کی شام ایک بیان میں کہا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے عملی نفاذ سے دنیا پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گئی ہے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں انہوں نے کہا برطانیہ نے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان معاہدے میں اہم کردار ادا کیا ہے آج نہ صرف مشرق وسطی بلکہ پوری دنیا زیادہ محفوظ ہو گئی ہے ایران پر عائد پابندیاں اٹھائے جانے کے فیصلے پر فرانس نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ اس فیصلے سے علاقائی تنازعات اور چیلنجز سے نمٹنے میں مدد ملے گی اور دنیا کو دوسرے ایشوز پر توجہ دینے کا موقع ملے گا۔
اس وقت عرب ایران کشیدگی عروج پر ہے وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف سعودی عرب میں ہیں اس دورے کے دوران وزیر اعظم اور آرمی چیف کو سعودی عرب کی جانب سے عشائیہ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل پاکستانی وفد کا سعودی عرب کے رہنمائوں سے مذاکرات کا ایک دور بھی ہوا دوسرے دور کے مذاکرات میں پاکستانی وفد میں طارق فاطمی ،سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر منظور الحق اور وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد بھی موجود تھے اور سعودی رہنمائوں میں فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز ،وزیر خارجہ عادل الجبیرا اور شاہی خاندان کے دوسرے افراد شریک ہوئے۔
سعودی میڈیا رپورٹس کے مطابق دوسرے دور کے بعد طارق فاطمی کا کہنا ہے کہ یہ دور بھی کامیاب رہا طارق فاطمی نے امید ظاہر کی کہ سعودی عرب کی طرح ایران بھی پاکستانی کوششوں کی حمایت کرے گا ان کا مزید کہنا تھا ہمیں پورا یقین ہے کہ دو اسلامی ممالک کے درمیان تنازع خوش اسلوبی سے حل ہو جائے گا جبکہ انتہائی معتبر ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستان نے سعودی رہنمائوں پر زور دیاکہ اگر سعودی عرب اور ایران کشیدگی ختم نہ ہوئی تو پھر خطے میں امن کو خطرہ ہوگا جس کا نقصان مسلمانوں کو ہو گا اس لیے دونوں مملک باہمی مذاکرات کر کے معاملے کو ختم کریں اور پاکستان اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرے گا کہ دونوں مملک کے درمیان حالات معمول پر آ جائیں خیال ہے کہ پاکستان ایران سے بھی بات کرے گا۔
ہمیں خوشی ہے کہ برادر اسلامی ملک پر سے پابندیاں اٹھا لی گئیں لیکن پابندیاں اٹھتے ہی پاکستان کو ایران کی طرف سے دھمکی اچھا شگون نہیں ہے پاکستانی قوم یہ سوچنے پر مجبور ہوگی کہ کیا ان پابندیوں کے اٹھانے میں امریکہ برطانیہ کی نیت کیا ہے وہ دنیا کو محفوظ کر رہے ہیں یا ایک اور کٹا کھول رہے ہیں سابق صدر پرویز مشرف جو کہ ایک نجی ٹی وی کو انٹر ویو دے رہے تھے جب ان کی توجہ ایرانی دھمکی کی طرف دلائی گئی تو انہوں نے کہا انہیں سمجھ نہیں آئی کہ ایران کو ایسا کیوں کہنا پڑا یاد رہے۔
اکبر بگتی قتل کیس میں ساڑھے تین برس بعد پرویز مشرف کو اس کیس سے ثبوت نہ ہونے کی بنیاد پر بری کر دیا گیا ہے اور بلوچستان میں فراری بھی ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہو رہے ہیں جبکہ بلوچستان کا امن بحال ہو رہا ہے یہ اکا دکا دھماکے اور سیکورٹی اہلکاروں کی شہادتیں کون کروا رہا ہے ؟ یقیناً ایسا کروانے والا پاکستان کا دوست نہیں ہو سکتا۔
تحریر : مسز جمشید خاکوانی