تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
پاکستان کے مشیرخارجہ سر تاج عزیز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کے لئے وقت آنے پر اپنا کردار ادا کرنے کا عندیہ دیتے ہوے کہا ہے کہ پاکستان اپنے مفادات کا تحفظ کرے گاسعودی عرب اورایرن معاملات میں پہلی ترجیح پاکستان کے مفادات ہیں۔پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے سالمیت پر اگر آنچ آئی تو پاکستان سعودی عرب کا بھر پور دفاع کرے گا۔مبصرین کا اور مشیرِ خاجہ دونوںکاکہنا ہے کہ حالات بتا رہے ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کشیدگی سے دہشت گرد فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اسلامی دنیا کو تنائو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سعودی عرب اور ایران کی کشمکش صدیوں پرانی چلی آرہی ہے۔مگر ہماری کوشش ہے کہ ریاض اور تہران کے درمیان کشیدگی کم ہو۔اور کوشش ہے کہ مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دیا جائے،پاکستان کو سعودی عرب اور ایران کے معاملے پر احتیاط سے کام لینے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
سعودی عرب اور ایران کا ایک دوسرے پر اشتعال انگیزی پھیلانے کا الزم سامنے آرہا ہے۔سعودی وزیرِخارجہ عادل الجبیر کا کہنا ہے کہ اشتعال انگیزی ریاض یا خلیج کونسل نہیں پھیلا رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ایران نے اگر اپنی پالیسیاں تبدیل نہ کیں تو مزید اضافی اقدامات کریںگے ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ سعودی عرب نے تہران میں اپنے سفارت خانے پر حملے کے خلاف او آئی سی کا اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ جس پر کہ خلیج تعاون کونسل نے اپنے ایک اجلاس کے بعد ایران پر سعودی عرب کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام لگاتے ہوے اس کے اقدامات کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
دوسری جانب ایران نے حالیہ کشیدگی کا ذمہ دار سعودی عرب کو ٹہراتے ہوے اقوام متحدہ کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی بڑھانانہیں چاہتا ہے۔لیکن سعودی عرب مسلکی منافرت کو ہوا دے رہا ہے۔….حالانکے سعودی عرب کے مشرقی صوبے سے تعلق رکھنے والے شیخ نمر النمر کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سعودی عرب کے مشرق میں القطیف اور الاحاء کو کے علاقوں کوسعودی عر ب سے الگ کرنا چاہتے تھے ۔جس کیلئے وہ مسلسل جدوجہدبھی کر رہے تھے۔ ایران سعودی تصادم خطے کے لئے ہی نہیںبلکہ ساری اسلامی امہ اور دنیا کے لئے تشویشناک ہے۔
شیخ نمر کی ہلاکت پر احتجاج کرنے والوں کو سعودی سفارتی مشن پر حملے سے روکنا ایرانی حکومت کی ذمہ داری تھی جو ایرانی حکومت نے پوری نہیں کی۔تہران کے سفارت خانے اور مشہد میں سعودی کونسولیٹ میں آٹش زنی اور توڑ پھوڑ کے بعد ایرانی صدر حسن روحانی کا ان حملوں پر مذمتی بیان اور چند مظاہرین کی گرفتاری بے اثر ثابت ہوئی جو بگڑتے ہوے حالات کو سنبھال نہ سکا۔سعودی عرب سے اظہارِیکجہتی کی غرض سے بحرین، سوڈان اور کویت نے ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کر لئے ہیں۔اور یو اے ای میں دوبئی نے اپنے ایران سے تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
ایران سعودی عرب تعلقات شروع سے نرم گرم چلے آرہے ہیں۔1987میں حج کے موقعے پر ہونے والے ہنگامے میں چار سو کے قریب شیعوں کی ہلاکت پر بھی مشتعل لوگوں نے تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ کر دیا تھا جس سے ان دونوں ممالک میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔اور سفارتی تعلقات منقطع ہوگئے تھے۔…..اسی طرح 2015کے حج کے دوران بھگدڑ میں ساری دنیا کے دو ہزار کے قریب عازمینِ حج کے شہید ہونے کے بعد ایران کیجانب سے سعودی حکومت کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈے کو خوب ہوا دی گئی،جس سے سعودی عرب اور ایران تعلقات میںایک مرتبہ پھر کشیدگی پیدا ہوگئی۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایران نے اسرائیل کے قیام کے بعد مسلم امہ سے اختلاف کرتے ہوئے رضا شاہ پہلوی کے دور میں نا صرف اسرائیل کو تسلیم کر لیا بلکہ اس کا سفارتخانہ بھی ایران میں کھولنے کی اجازت دے کرعرب مسلمانوں سے صر یح اختلاف کا آغاز تو 1948 میںہی کر دیا تھا۔
موجودہ صورتِ حال میںسب سے زیادہ متاثر پاکستان ہی کے ہونے کے خدشات موجود ہیں۔تعلقات کے حوالے سے ایران کوصر ف ایک کریڈت جاتا ہے کہ وہ ہمارا ہمسائیہ ہے۔عرب ملکوں کی جانب سے 34ملکوں کا اتحاد میں بھی ایران کو شامل نہ کرنا بھی ایران ہضم نہیں کر سکا۔اس بات سے بھی کسی کو انکار کا چارا نہیں کہ سعودی عرب ہمارے ہر سرد گرم موسم میں ہمارے شانے سے شانہ ملا کر کھڑا رہا ہے۔
وہ چاہے ایٹمی دھماکوں کا معاملہ ہو یا پاکستان کی اقتصادی ناکہ بندی کا معاملہ ہو یا ہمارے اوپر جنگیں مسلط کی گئی ہوں یا قدرتی آفات کا معاملہ ہو۔جو ہمارے حق میں حمایت پر کسی بھی دبائو کو خاطر میں نہیںلایا۔بلکہ ایران نے تو اپنے مفادات سمیٹ کر اور ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کر کے پاکستان کے ایٹم بم کے موجد ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف وہ کھیل کھیلا جس کو مسلمان تاریخ کبھی فراموش نہ کر سکے گی۔ مگر ہماری جانب سے پھر بھی لب کشائی نہ کی گئی۔ یہ امر بھی ناقابلِ فراموش ہے کہ ایران عراق جنگ کے دوران پاکستان نے اپنے آپ کو اس کشمکش سے دور رکھا۔مگر اس کے باوجود بھی ایران کی جانب سے ہمارے رویئے پر کو ئی مثبت ردِ عمل یا گرم جوشی دیکھنے میں نہیں آئی۔ایران ہمارے دشمنوں کا دوست رہا ہے۔
یہ بھی عجیب بات ہے کہ پاکستانی دونوں ملکون سے اپنے اپنے پیرائے میں محبت کارویہ روا رکھتے ہیں ۔مگر دونوں ممالک اور ان کے لوگ پاکستانیوں کو اپنے ماضی کے فخر پر گھنڈ کا شکار ہونے کی وجہ سے عزت و وقار کی نظر سے کبھی بھی نہیں دیکھتے ہیں۔ہیںجو خصوصاََ پاکستان کے لوگوں کو اپنے سے کمتر اور خود کو انتہائی برتر تصور کرتے ہیں ۔خاص طور پر پاکستانی زائرین چاہے و ہ عمرے پر گئے ہوں یا ایران میں زیارتوں پرگئے ہوں ،ان کو حقارت کی نظروں سے دونوں ملکوں میں دیکھا جاتاہے۔مگر اس کے باوجود ہم جذباتی لوگ ان دونوں کی حقارتوں کو فراموش کئے رہتے ہیں۔ مگر جب ان کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم ان کے مسلکی معاملات پر انکے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔ماضی کے ایران کے بعد آج کے عرب ممالک میں سے بعض نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے ۔مگر ہم فلسطینی کاذ سے آج بھی ماضی کی طرح جڑے ہوے دکھائی دیتے ہیں۔
افغانستان کے حوالے سے پاکستان جو حکمتِ عملی اختتیار کرتا ہے اُس کی تائد سعودی عرب کی جانب سے بلا جھجھک کی جاتی ہے۔اس کے برخلاف ایران ہندوستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہوتا ہے۔جس وقت پاکستان نے پوری دنیا کو ناراض کر کے ایٹمی دھماکے کئے تو ساری دنیا کی مخالفتون کے باوجود سعودی عرب نے پاکستان کو اقتصادی دیوالیہ ہونے سے بچانے میں مغرب کی ناراضگی کے باوجود ہماری دامے درہمے سخنے ہر لحاظ سے مدد کی۔اور سعودی عرب ہی وہ ملک تھا جس نے پاکستان کے ایٹمی قوت بننے پر جشن منایا تھا۔آج بھی مغربی میڈیا خبر دے رہا ہے کہ ایرانی انٹیلی جینس کے لوگ شام میں لڑنے کے لئے پاکستان سے تنخواہ دار گوریلے بھرتی کرا کر بھیج رہی ہے۔جس سے صرف مسلمانوں کو ہی نقصان پہنچ رہا ہے۔
کیا ایران اس بات سے انکار کرے گا کہ امریکہ نے سویت یونین کے خلاف پاکستان کی سر زمیں استعمال کی ۔مگر امریکہ کے زبردست دبائو کے باوجودپاکستان ایران کے خلاف کبھی بھی استعمال ہوا؟ ایران نے ہندوستان کو افغانستان میں اپنا اسٹریٹجک حصہ دار بنایا ہوا ہے۔افغانستان کے سلسلے میں ایران ہمیشہ پاکستان کامخالف رہا ہے،اور ہندوستان کا حلیف رہا ہے۔اس کے برعکس سعودی قیادت اور ان کے ہمنوا عرب ممالک ہمیشہ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دیئے ہیں۔پاکستان پر احسانات کے لحاظ سے ایران کے مقابلے میںعربوں کا حصہ بہت زیادہ بڑاہے۔ اور اکثر امور میںایران کی حکمتِ عملی افغانستان میں پاکستان کی مخالفت میں ہوتی ہے۔
سعودیہ اور ایران کے معامے پر یہ امر اطمنان بخش ہے کہ امریکہ اور جرمنی نے دونوں ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوے اپنے سفارتی تعلقات بحال کریں اور اپنے مسائل کو افہام و تفہیم سے حل کریں۔دوسری جانب روس کے صدر پیوٹن نے ایران و سعودی عرب تنازعے پرمصالحت کرانے کی پیشکش کی ہے۔
اس ضمن میں پاکستان بھی اپنے حصے کا کردار ادا کرنے پر ہر آن آمادہ ہے۔مگر ایران کی خاطر ہم اپنے سچے ہمدرد بھائی سعودی عرب کی مخالفت مول نہیں لے سکتے ہیں۔ایران خاص طور پر ،اور سعودی بھی اپنی حکمتِ عملی کو بہتر سمت میں لاکر اپنے معاملات کو ماضی کی طرح مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ی حل کرنے کا راستہ ہموارکریں۔ماضی کی طرح موجودہ تنازعے کو بھی دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت سے حل کرنے میں دیر نہیں کیجانی چاہیئے اور ہر جانب سے تدبر کا مظاہرہ کیا جانا چاہئے۔اس میں پاکستان اپنا مثبت کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir23khurshid@gmail.com