امریکہ (ویب ڈیسک )ایران کی طرف سے عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر حملے کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر نئی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے لیکن اب تک ٹرمپ کے اس بیان کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں کہ امریکہ ایران پر کون سی نئی پابندیاں لگانے جا رہا ہے۔امریکہ ایران پر پہلے ہی دفاعی اور تجارتی شعبوں میں کافی پابندیاں عائد کر چکا ہے اور ماہرین کے مطابق اب امریکہ کے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہیں کیونکہ ایسا کوئی شعبہ نہیں ہے جس میں امریکہ نے ایران پر پہلے ہی پابندیاں نہ لگا رکھی ہوں۔
’دوسرا قدم یہ ہو سکتا ہے کہ وہ یورپی یونین یا دیگر اتحادیوں سے ایران پر پابندیاں لگانے کا مطالبہ کریں۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ کوئی ملک مانے گا کیونکہ پہلے سے لگائی گئی امریکی پابندیوں کے باوجود یورپی یونین ایران سے تیل خرید رہا ہے اور اس کو انسانی بنیادوں پر خوراک فراہم کر رہا ہے۔‘تاریخ اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر ڈاکٹر الہان نیاز سمجھتے ہیں کہ اب امریکہ کے پاس واحد آپشن ایران کی کچھ سیاسی شخصیات پر پابندیاں لگانا ہے جیسا کہ انہوں نے ان کے وزیر خارجہ جواد ظریف کو ویزا نہ دے کر کیا۔امریکہ نے ایران کے خلاف سب سے پہلے 1979 میں پابندیاں عائد کی تھیں جب تہران میں اس کے شہریوں کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ اس وقت ایران کے تقریباً 12 ارب ڈالر کے اثاثوں کو منجمند کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ایران پر متعدد اقتصادی، بینکنگ، تجارتی، دفاعی اور نقل و حمل کی پابندیاں لگائی گئیں۔امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق ٹرمپ کے تازہ ترین اعلان سے پہلے ہی دسمبر میں ایران کے لیے کام کرنے والے چار عراقیوں پر شخصی پابندیاں لگا دی گئی تھیں۔ایران کی طرف سے عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر حملے کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر نئی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے لیکن اب تک ٹرمپ کے اس بیان کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں کہ امریکہ ایران پر کون سی نئی پابندیاں لگانے جا رہا ہے۔امریکہ ایران پر پہلے ہی دفاعی اور تجارتی شعبوں میں کافی پابندیاں عائد کر چکا ہے اور ماہرین کے مطابق اب امریکہ کے پاس زیادہ آپشنزنہیں ہیں کیونکہ ایسا کوئی شعبہ نہیں ہے جس میں امریکہ نے ایران پر پہلے ہی پابندیاں نہ لگا رکھی ہوں۔اس سے قبل ستمبر 2019 میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایران کے ساتھ ساتھ ان چینی کمپنیوں اور ان کے عہدیداران پر بھی پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا جو وہاں سے تیل لے کر جا رہی تھیں۔اسی اعلان کے ساتھ انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک اور کاروباری اداروں پر تعاون روکنے کے لیے دباؤ بڑھائیں گے۔اب تک ایران پر لگائی جانے والی پابندیوں کے تحت اس کو دفاعی ٹیکنالوجی فروخت نہیں کی جاسکتی اور تجارت بھی نہیں کی جا سکتی۔امریکہ نے 2015 میں ایٹمی پروگرام پر ایک ڈیل کے بدلے میں ایران پر اقتصادی پابندیوں میں نرمی کر دی تھی لیکن 2018 میں صدر ٹرمپ نے یہ ڈیل مسوخ کر کے تمام پابندیاں بحال کر دی تھیں۔