کابل: امریکا دشمنی کا منہ بولتا ثنوت دیتے ہوئے ایران کی چہا بہار بندرگاہ کو پابندیوں سے مستثنی قراردے دیا۔ جنوبی اور وسطی ایشیا کے معاملات کے بیورو کے لئے امریکی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری ایلس ویلز نے کابل میں افغان وزیر داخلہ صلح الدین ربانی کے ساتھ ملاقات میں کہا ہے کہ چہا بہار بندرگاہ کو امریکی پابندیوں سے مستثنی قرار دینے کی افغان حکومت کی درخواست کو منظور کر لیا گیا ہے۔
صلاح الدین ربانی نے ان کے ملک کو مسلسل مدد فراہم کرنے پر امریکی اقدامات کو سراہا ہے۔ افغان امن مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پائیدار امن کے حصول کے لئے اندرونی اور علاقائی مفاہمت کا اہم کردار ہے۔ ایلس ویلز اتوار کو کابل کے دورے پر پہنچی تھیں اور اب تک وہ افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ سے ملاقاتیں کر چکی ہیں۔ یاد رہے کہ امریکا ایک سپر پاور ہے جبکہ چین ایک بڑی معاشی طاقت کے طور پر امریکا کی اجارہ داری کو چیلنج کر رہا ہے لہٰذا ان دونوں بڑی طاقتوں کی اس کشیدگی کے باعث دنیا میں نئے الائنس بن رہے ہیں جس میں اس خطے کے ممالک کا کردار انتہائی اہم رہے گا۔پاکستان کی اسٹرٹیجک اہمیت خصوصاَ گوادر پورٹ اور سی پیک منصوبے کی وجہ سے دنیا کی نظریں یہاں لگی ہیں جبکہ پاکستان اور چین کے مخالف ممالک اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کیلئے اپنا منفی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس سارے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے ’’ پاکستان کو سفارتی محاذ پر درپیش چیلنجز اور ان کا حل‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم ‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔پاکستان کو درپیش بیرونی مسائل پر بات کرنے سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کی شخصیت کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
حال ہی میں ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران کہا کہ میں نے گزشتہ 2 برسوں میں جو کامیابی حاصل کی ہے، کسی اور نے نہیں کی۔ اس پر وہاں موجود دنیا بھر کے سربراہان و نمائندے ہنس پڑے جس سے ہمیں ٹرمپ کی پوزیشن کا معلوم ہوگیا کہ دنیا اسے کتنا سنجیدہ سمجھتی ہے۔ “Fear” کے نام سے آنے والی کتاب کا مطالعہ کریں تو اس میں حیران کن انکشافات کیے گئے ہیں کہ کس طرح ٹرمپ انتظامیہ کے لوگ فائلیں چھپا رہے ہیں کیونکہ وہ اس کی پالیسیوں اور غیر سنجیدگی سے خوفزدہ ہیں۔ ٹرمپ نے ایران پر پابندیوں کی بات کی جبکہ نومبر میں ہونے والے انتخابات میں چین پر مداخلت کا الزام بھی لگایا۔ نریندر مودی کی بات کریں تو اس کی سوچ انتہا پسندانہ ہے اور اس کا ماضی سب کے سامنے ہے۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ شیو سینا بن چکی ہے کیونکہ شیو سینا کی مرضی کے بغیر ہمارے کھلاڑی، فنکار و غیرہ بھارت نہیں جاسکتے۔ میرے نزدیک پاک بھارت معاملات بہتر نہ ہونے میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ ایک بڑی رکاوٹ ہے جبکہ پاکستان امن کا خواہاں ہے۔
یہ بات بالکل واضح ہے اس خطے میں امریکا کا پارٹنر اب بھارت ہے، ہم چاہے جتنی بھی کوشش کر لیںامریکا ہمارا دوست نہیں بن سکتا بلکہ وہ افغانستان میں اپنی شکست کا الزام پاکستان پر لگاتا ہے اور ہم سے سخت مطالبات بھی کرتا ہے۔ عالمی منظر نامے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ بھارت، امریکا، اسرائیل، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ایک طرف جبکہ پاکستان،چین، روس، ایران اور ترکی دوسری طرف نظر آرہے ہیں لہٰذا اب معاملات اسی تناظر میں آگے بڑھیں گے۔