12 مئی کے عراق میں عام انتخابات میں، شیعہ رہنما مقتدی الصدر کی قیادت میں’’سایرون اتحاد‘‘ کی غیر متوقع فتح نے نہ صرف عراق میں سیاسی نقشہ بدل دیا ہے بلکہ مشرق وسطیٰ کی سیاست پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
’’سایرون اتحاد‘‘ میں مقتدی الصدر کی تحریک التیار الصدری، کمیونسٹ پارٹی، جسٹس پارٹی اور تبدیلی کے حامی نوجوانوں کی تحریک شامل ہے۔ سایرون اتحاد نے پارلیمنٹ کی 329 نشستوں میں سے 55 نشستیں جیتی ہیں۔ اتحاد کو کل ملا کر 1500862ووٹ ملے ہیں۔ پہلی بار اس اتحاد کی کمیونسٹ پارٹی کی خاتون رہنما نجف اشرف کی مئیر منتخب ہوئی ہیں۔
مقتدی الصدر، امریکا کے کٹر مخالف مانے جاتے ہیں اور دراصل عراق کی جنگ کے بعد امریکا کے خلاف تحریک میں پیش پیش رہنے کی وجہ سے انہیں شہرت حاصل ہوئی ہے۔ ان کی جیش مہدی نے دو بار امریکا کے خلاف مسلح شورش کی قیادت کی تھی۔ اس دوران مقتدی الصدر کو عراق سے فرار ہو کر ایران میں قم میں پناہ لینی پڑی تھی۔
مقتدی الصدر، عراق میں ایران کے اثر کی مخالفت میں بھی پیش پیش رہے ہیں جو بہت سے مبصرین کے لئے باعث تعجب ہے کیونکہ لبنان میں ایران حامی شیعہ جماعت امل کے بانی موسی الصدر کے کزن ہیں۔ موسی صدر اگست 1978میں لیبیا جاتے ہوئے غائب ہوگئے تھے اور اب تک ان کا سراغ نہیں مل سکا ہے۔
عراقی عام انتخابات میں ہادی العامری کی ایران حامی جماعت الفاتح جس عراق میں داعش کو شکست دینے میں کلیدی رول ادا کیا تھا، 47 نشستیں حاصل کر کے پارلیمنٹ میں دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔
موجودہ وزیر اعظم حیدر العبادی کا ’’فتح اتحاد‘‘ صرف 42 نشستیں حاصل کر پایا ہے۔
عام انتخابات میں مقتدی الصدر کے سایرون اتحاد کی فتح کی سب سے بڑی وجہ کرپشن کے خلاف تحریک کی قیادت ہے اور اس کے منشور میں غریبوں کی بہبودی اور اسکولوں اور ہسپتالوں کے قیام کو ترجیح دی گئی تھی۔
سایرون اتحاد کی فتح کے باوجود، مقتدی اصدر کے وزیر اعظم بننے کا امکان نہیں ہے۔ اول تو وہ انتخابات میں امیدوار نہیں تھے دوم ان کے اتحاد کے مقابلہ میں ہادی العامری کے اتحاد کی 47 نشستیں اور وزیر اعظم حید العبادی کے اتحاد کی 42 نشستیں ہیں، ممکن ہے کہ حیدر العبادی، ہادی العامری کے اتحاد کے ساتھ سمجھوتہ کر کے دوبارہ حکومت تشکیل دیں۔ ایران بھی کوشاں ہے کہ حیدر العبادی اور ہادی العامری کا اتحاد نئی حکومت تشکیل دے کیونکہ وہ کسی صورت میں نہیں چاہتا کہ مقتدی الصدر کا اتحاد عراق میں بر سر اقتدار آئے۔ امریکا بھی مقتدی الصدر کے اتحاد کی حکومت کی تشکیل کے سخت خلاف ہے اور اس کی کوشش ہے کہ موجودہ وزیر اعظم حیدر العبادی بدستور وزیر اعظم رہیں۔
مبصرین کو یاد ہے کہ 2010 کے انتخابات میں نائب صدر عیاد علوی کے گروپ نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں لیکن ایران کی مخالفت کی وجہ سے وہ حکومت نہیں بنا سکے۔
بتایا جاتا ہے کہ ایران کی القدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی آج کل بغداد میں ہیں جن کا مشن، مقتدی الصدر کو بر اقتدار آنے سے روکنا ہے۔ مقتدی الصد اس بات پر سخت ناراض ہیں اورانہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ قاسم سلیمانی کو عراق سے فوری طور پر نکل جانے کا حکم دیا جائے۔
یہ ستم ظریفی ہوگی اگر ایران، امریکا کے کٹر حریف مقتدی الصد ر کو بر سر اقتدار آنے سے روک دے اور اس کے نتیجہ میں امریکا کے حامی حیدر العبادی بدستور بر سر اقتدار رہیں۔ ایسا نظر آتا ہے کہ امریکا جو ایران کے خلاف جنگ پر آمادہ ہے، کم از کم عراق میں ایران کے ساتھ ایک صفحہ پر یک جا نظر آتا ہے۔