قدرت اللہ شہاب مشہور ادیب اور بیوروکریٹ تھے۔ وہ گورنر جنرل غلام محمد، سکندر مرزا اور صدر ایوب خان کے پرنسپل سیکریٹری رہے۔ یہ عہدہ بیوروکریسی میں طاقت کی معراج سمجھا جاتا تھا۔ شہاب صاحب نے بنگال میں قحط کے دوران غلّے کے ذخائر بھوکے عوام کے لیے کھول دیے، جھنگ میں عوامی فلاح کے بیشمار کام کیے اور وہیں ان کا ایک پراسرار روحانی شخصیت سے سامنا ہوا، ایوب خان کو پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھنے کا مشورہ بھی انھوں نے ہی دیا تھا، شہاب صاحب نے ایک ایماندار افسر کی سادہ زندگی گزاری، اعلیٰ افسانے لکھے اور بے مثال سوانح عمری ’شہاب نامہ‘ تحریر کی۔
احمد بشیر شہاب صاحب کے دوست تھے‘ وہ معروف صحافی اور ادیب تھے۔ وہ سوشلسٹ تھے اور وہ روحانی معاملات پر زیادہ یقین نہیں رکھتے تھے‘ شہاب صاحب 1960ء کی دہائی میں وزارت ِ تعلیم کے سیکریٹری تھے اور احمد بشیر ملازم‘ یہ دونوں ممتاز مفتی کی وجہ سے ایک دوسرے کے قریب تھے۔ ایک روز احمد بشیر کو قدرت اللہ شہاب کا فون آیا۔ شہاب صاحب کی آواز میں ہیجان تھا انھوں نے احمد بشیر سے کہا ’’آپ فوراً میرے دفتر آ جائیں‘‘ احمد بشیر شہاب صاحب کے دفتر پہنچے تو وہ اکیلے بیٹھے تھے۔ وہ احمد بشیر کو دیکھتے ہی بولے ’’آج میں بے انتہا خوش ہوں۔ مجھے بتا دیا گیا ہے‘ میں نے کب مرنا ہے۔‘‘
شہاب صاحب خلاف ِ مزاج اپنی خوشی چھپا نہیں پا رہے تھے۔ احمد بشیر نے سوال کیا ’’آپ کو کس نے اور کیا بتایا‘‘ شہاب صاحب نے جواب دیا ’’میں صرف اتنا بتا سکتا ہوں مجھے ممتاز مفتی سے پہلے موت آئے گی۔‘‘ احمد بشیر نے یہ کشف مذاق میں اڑا دیا لیکن یہ بات بعد ازاں سو فی صد درست ثابت ہوئی۔
شہاب صاحب چھیاسٹھ برس کی عمر میں فوت ہو گئے جب کہ ممتاز مفتی نے نوے برس کی طویل عمر پائی۔ یہ واقعہ احمد بشیر نے عرفان جاوید کو سنایا تو اُ س نے پوچھا ’’آپ لوگ کہیں شہاب صاحب کے عہدے کی وجہ سے تو ان سے متاثر نہیں تھے‘‘ احمد بشیر غصے میں آ گئے اور کہنے لگے ’’ہرگز نہیں۔ وہ بہت نفیس آدمی تھے وہ یحییٰ خان کے زمانے میں اصولی بنیادوں پر مستعفی ہو گئے تھے ہمیں ان کی ملازمت چھوڑنے اور وفات کے بعد دروغ گوئی کا کیا فائدہ؟‘‘
یہ واقعہ عرفان جاوید نے اپنی خاکوں کی کتاب ’’دروازے‘‘ میں بیاں کیا۔ ’’دروازے‘‘ میں ایسے سیکڑوں دلچسپ واقعات، تاریخی حقائق، ادیبوں کے قصّے اور عام لوگوں کی زندگیوں کا احوال ہے۔ اس میں عالمی ادب کی دلآویز باتیں‘ نفسیات اور فلسفے کے نکتے بھی ہیں۔ دروازے کے چند خاکے ایک برس تک اخبار میں شائع ہوتے رہے لیکن باقی نئے ہیں۔ میں نے ’’دروازے‘‘ اٹھائی تو میں یہ کتاب مکمل کیے بغیر سو نہ سکا‘ مجھے یقین ہے آپ بھی یہ کتاب شروع کرینگے تو ختم کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔
آپ ’’دروازے‘‘ کا ایک اور واقعہ ملاحظہ کیجیے۔ تقسیم ہند کے موقع پر سکھوں کا ایک طبقہ پنجاب کو اکٹھا رکھنا چاہتا تھا۔ سکھوں کے لیڈر ماسٹر تاراسنگھ کا ساتھی گیانی ہری سنگھ اپنے ساتھیوں کے ساتھ قائداعظم کو ملا اور پاکستان میں رہتے ہوئے خودمختاری کی بات کی۔
قائداعظم نے ان سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے جواب دیا ’’ماسٹر تارا سنگھ کو میرا پیغام دیدیں میں ان سے ملنے امرتسر جانے کے لیے تیار ہوں یہ صحیح معنوں میں سکھوں کے لیڈر ہیں۔ میں انھیں ان کی خواہش سے زیادہ دینے کے لیے تیار ہوں‘‘ گیانی ہری سنگھ قائد اعظم کا پیغام لے کر ماسٹر تارا سنگھ کے پاس گئے لیکن ماسٹر تارا سنگھ پر انتہا پسند ہندو سردار پٹیل کا بہت اثر تھا۔ وہ کرپان پر ہاتھ رکھ کر دھاڑنے لگا اور قائداعظم کے ساتھ ملنے سے صاف انکار کر دیا۔
آزادی کے بعد گیانی ہری سنگھ پاکستان میں رُک گئے اور ننکانہ صاحب میں قیام کیا۔ ایوب خان کے دور میں تارا سنگھ ننکانہ صاحب آیا اور گیانی جی کو دیکھ کر بری طرح رونے لگا‘ وہ ندامت سے بولا ’’گیانی! مجھے معاف کر دو، میں نے پنتھ کے خلاف بڑا گناہ کیا‘‘ یہ واقعہ بھی احمد بشیر نے عرفان جاوید کو سنایا اور آخر میں بتایا ’’مجھے یہ بات خود گیانی ہری سنگھ نے سنائی اور اس کی تصدیق بعدازاں سکھ دانشور جسونت سنگھ کنول نے 1981ء میں لاہور میں میرے سامنے کی‘‘ دروازے میں مستنصر حسین تارڑ کا خاکہ بھی موجود ہے۔
مستنصرحسین تارڑ نے بھی عرفان جاوید کو بیشمار واقعات سنائے‘ ان میں سے ایک واقعہ لاہور کے دو کرداروں سے متعلق تھا‘ ایک لڑکا اور ایک لڑکی اندرونِ شہرلاہور میں رہتے تھے، وہ محبت میں مبتلا ہو گئے۔ اُس دورمیں محبت کی شادی کو معیوب سمجھا جاتا تھا چنانچہ والدین نے ملاقات اور بات چیت پر پابندی لگا دی۔ دونوں نے طے کر لیا ہم آپس میں رابطہ نہیں رکھیں گے مگر کہیں اور شادی بھی نہیں کرینگے۔ کئی برس بیت جاتے ہیں۔ لڑکی کے بہن بھائیوں کی شادیاں ہو جاتی ہیں لیکن وہ اپنے فیصلے پر قائم رہتی ہے۔ یہاں تک کہ اُس کی بوڑھی ماں اس غم میں نڈھال رہنے لگتی ہے وہ سوچتی رہتی ہے اس کی موت کے بعد لڑکی کا کون پرُسانِ حال ہو گا؟ مگر جب وہ لڑکی کو شادی کا کہتی ہے تووہ اپنی یہ بات دُہرا دیتی ہے کہ اگر وہ شادی کریگی تو اُسی لڑکے سے کریگی۔
ماں بیٹی کو سمجھاتی ہے وہ اب تک شادی کر کے کئی بچوں کا باپ بن چکا ہو گا مگر لڑکی کو اپنی محبت پر یقین ہے۔ بالآخر ماں آمادہ ہو جاتی ہے اور یہ شرط رکھتی ہے لڑکی کو فوری شادی کرنا ہو گی، میری زندگی کا کوئی بھروسا نہیں میں تمہیں اپنی موت سے پہلے دلہن دیکھنا چاہتی ہوں۔ لڑکی کسی طرح لڑکے سے رابطے کا ذریعہ تلاش کرتی ہے۔ وہ لڑکے کو فون ملاتی ہے تو دوسری جانب سے وہی لڑکا فون اُٹھاتا ہے۔ لڑکی کی آواز سن کر وہ پوچھتا ہے ’’بارات کب لاؤں؟‘‘ لڑکی کہتی ہے ’’آج شام!‘‘ اُسی شام اُن دونوں کی شادی ہو جاتی ہے۔
عرفان جاوید کے ’’دروازے‘‘ میں ’’سب رنگ‘‘ کے بانی اور ’’بازی گر‘‘ جیسے شاہکار کے مصنف شکیل عادل زادہ کی زندگی کے بیشمار رنگین واقعات بھی شامل ہیں۔ اُن کا مینا کماری کے گھر میں قیام، کرشن چندر، جون ایلیا اور جوش ملیح آبادی کے قصّے، ضیاء الحق سے ملاقات کا احوال، ہندوستان کے شہروں کی سیاحت اور گھاٹ گھاٹ کی پرُلطف کہانیاں یہ خاکہ بھی خاکہ نہیں الف لیلیٰ ہے، شکیل صاحب نے ’’دروازے‘‘ میں رئیس امروہوی کی ناگہانی موت کے راز سے بھی پردہ اٹھایا۔ وہ پچاس سال پہلے مشتاق احمد یوسفی کی اس نصیحت کا ذکر بھی کرتے ہیں جسے اُنھوں نے عمر بھر مشعلِ راہ بنائے رکھا ۔
’’دروازے‘‘ میں احمد فراز کی ذاتی زندگی کے کئی واقعات بھی ہیں، فراز اپنے ملازم میاں بیوی کے اکلوتے گونگے بہرے بچے سے کتنی محبت کرتے تھے‘ ان کی گرفتاری کی روداد اور جنرل حمید گُل سے ملاقات کا ماجرا بھی کتاب میں موجود ہے۔ ’’دروازے‘‘ میں درجنوں چھوٹے چھوٹے چٹکلے بھی ہیں۔
مشہور افسانہ نگار منشا یاد اپنی جوانی کے زمانے میں نسیم حجازی سے ملنے گئے اور ان سے درخواست کی آپ مجھے اپنے دوستوں کے حلقے میں شامل کر لیں‘ یہ سن کر حجازی صاحب کہنے لگے ’’برخوردار! یہ عمر نئی دوستیاں بنانے کی نہیں ہوتی یہ پرانی دوستیوں پر نظر ثانی کی ہوتی ہے‘‘ عطا الحق قاسمی صاحب نے دعویٰ کیا بچپن کے دوستوں سے اس وقت دوستی قائم رہتی ہے جب ذہنی سطح ایک ہو یا پھر دلچسپی اور روزگار مشترک ہوں ورنہ ملاقات کے کچھ دیر بعد بات کرنے کے لیے کچھ نہیں بچتا دوست مختلف انسان بن چکے ہوتے ہیں۔ اسی طرح عموماً مرد اور عورت کی دوستی زیادہ دیر تک نہیں چلتی۔
اس میں رومان یا دوسرے عوامل اثر انداز ہو جاتے ہیں، ایک مرتبہ فیض صاحب سے منوبھائی نے مشورہ مانگا تھا میں کس زبان میں شاعری کروں‘ فیض صاحب نے کلاسیک مشورہ دیا تھا ’’جس زبان میں خواب دیکھتے ہو۔‘‘ اے حمید کی زندگی کی بیشمار کہانیوں میں سے ایک کہانی درختوں اور پودوں کے احساسات کی کہانی ہے یہ اب یورپ و امریکا میں سائنسی طورپر تسلیم کی جا چکی ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد لاہور کا ریڈیو اسٹیشن ایک اہم ثقافتی مرکز تھا ریڈیو پاکستان میں چوٹی کے شاعر اور ادیب اکٹھے ہوتے تھے۔ سردیوں کے دن تھے۔ زیڈاے بخاری مہتمم اعلیٰ تھے۔ دیوار کے ساتھ پیپل اور پیپلی کا ایک جوڑا ہوا میں جھومتا رہتا تھا۔ ایک روز بخاری صاحب نے درختوں کی جانب اشارہ کیا اور اے حمید نے اگلے روز دیکھا پیپلی کا درخت کٹا ہوا تھا اور اس کے تنے کا ٹنڈ زمین سے یوں باہر نکلا ہوا تھا جیسے ڈوبتے کا ہاتھ آخری مرتبہ پانی سے باہر آتا ہے۔ کٹے درخت کو دیکھ کر اے حمید کو یوں لگا جیسے ان کے گھر کا کوئی فرد مر گیا ہو۔
واقعے کے چند روز بعد پیپل کا باقی رہ جانے والا درخت پیپلی کے دکھ میں مر جھانے لگا اور دو ماہ بعد خشک ہو کر مردہ ہو گیا۔ دروازے میں اے حمید کی سری لنکا، برما، ہندوستان کی آوارہ گردیوں کی بیشمار کہانیاں بھی ہیں اور ان کی بارش، جنگل، چائے، بادل، پرندوں وغیرہ سے رومان کی باتیں بھی‘ یہ باتیں دھیمی پھوار کی طرح اور پھول کی بھینی خوشبو کی مانند ہیں۔
احمد ندیم قاسمی اپنے بٹوے میں ہر وقت کس دوست کی تصویر رکھتے تھے، مرتے وقت ’’اداس نسلیں‘‘ اور کئی شاہکار کتابوں کے مصنف عبداللہ حسین کو کیا خلش تھی، ’’ہر گھر سے بھٹو نکلے گا، تم کتنے بھٹو مارو گے‘‘ کا خالق نصیر جی ٹی روڈ پر ٹھنڈی بوتلوں کا کھوکھا لگاتا تھا اس نے کسمپرسی میں کینسر کے ہاتھوں وفات پائی اس کی آخری خواہش کیا تھی، تصدق سہیل ایک عجیب و غریب زندگی گزارنے والا افسانوی نوعیت کا بڑا مصور ہے‘ اس نے ساری زندگی شادی نہیں کی، پچاس سال لندن میں گزارے اور وہ اب پاکستان میں جانوروں اور پرندوں کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے۔
یہ تمام لوگ عرفان جاوید کے ’’دروازے‘‘ کے پیچھے بیٹھے ہیں‘ ’’دروازے‘‘ فقط ایک کتاب نہیں‘ یہ گزری راتوں کا نوحہ اور بسر ہوتے مشاہیر کا مرثیہ ہے‘ میں نے طویل عرصے بعد ایک ایسی کتاب دیکھی جس میں شخصیات بھی ہیں‘ علم بھی‘ مشاہدہ بھی‘ تاریخ بھی اور ثقافت بھی‘ یہ کتاب پڑھنے کے بعد میرے دل سے بے اختیار نکلا ’’زندہ باد عرفان جاوید‘‘۔