تحریر : لقمان اسد
کیا کیجیئے اسے حالات کی ستم ظریفی تصور کیجیئے یا شومئی قسمت خیال کیجیئے ہمارے سامنے اس قدر بھیانک حقائق ہیں کہ منہ جن سے موڑا نہیں جا سکتا وطن عزیز کو گذشتہ 67برس سے ایسے گھائو اور زخم بخشے گئے ہیں جن کے بھرنے میں بہت وقت درکار ہے ناامیدی اور مایوسی کا سوال اگرچہ اس باب میں ناممکن ہے کہ یہ زخم اور گھائو ہرصورت بھر جانے ہیں مگر ایک ذلت آمیز اور تحقیر آمیز زندگی فی الحال اس قوم کا مقدر ہے ایک امید احتجاجی دھرنوں کے سبب قوم کے دلوں میں در آئی لیکن ایک قومی سانحہ نے ان دھرنوں کو دھرلیا اور اب پھر حکومت کے وارے نیارے ہیں کرکٹ کے عالمی میلہ منڈی رسوا کن شکستوں میں پورے ملک میں ایک ہنگامہ کھڑا کررکھا ہے پی آئی اے تباہ حال ہے،اسٹیل ملز نقصان میں جارہی ہے ریلوے کی پٹریاں کچھ خواجہ سعد رفیق کی کاوشوں سے آباد ہوئی مگر منافع کا دور تک ابھی کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا اسی طرح جدھر کا آدمی رخ کرے اور جس قومی ادارے پر نگاہ ڈالے وہی زبوں حالی اور خستہ حالی کی داستان سناتا نظر آتا ہے
معاملات ایسی شخصیات کے سپرد ہیں جن کی طائرانہ نظریں ہرحال اور ہروقت ذاتی مفادات اور کاروبار پر گڑھی ہیں ملک پر چار مرتبہ برسراقتدار رہنے والی ایک بڑی سیاسی جماعت کہ جس کی صف میں مخدوم قائم علی شاہ سے زیادہ ایماندار، محب وطن اور باصلاحیت شخصیت کوئی دوسری نہیں جسے شاہ صاحب کی جگہ سندھ کی اعلی مسند پر بیٹھایا جانا ممکن ہو گذشتہ ایک عرصہ سے یہ پارٹی باپ،بیٹے کی لڑائی کو ختم نہیں کراسکیں اور اِدھر ہمارا بھی مقدر دیکھے کہ ایسی لیڈر شپ سے ہم اپنے دنوں کے سنور نے کی آس امید لگائے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے پرسکون بیٹھے ہیں جب کہ ملک میں تیسری بار حکومت قائم کرنے کا اعزاز حاصل کرنے والی ن لیگ خاندان کے ماں سوا کسی کو بااختیار دیکھنے کی خواہش تک نہیں رکھتی اور نہ ہی یہ عمل اس جماعت کی لیڈر شپ کو گوارا ہے
”سمدھی اینڈ کمپنی لمیٹڈ”کی طرز پر ملک کو ایشیاء کا ٹائیگرز بنانے کی آرزو مگر ان صاحبان کے دل میں تڑپتی ہے اور اس جذبہ حب الوطنی کی داد دیئے بغیر کوئی باشعور انسان نہیں رہ سکتا کہ اس سمدھی اینڈ کمپنی لمیٹڈ نے ہرصورت وطن عزیز سے کشکول کلچر کے خاتمہ کا عزم کررکھا ہے اسی آرزو کی تکمیل کے غم سے نڈھال یہ لمیٹڈ کمپنی کبھی” قرض اتاروں ملک سنوارو”جیسے شاندار پروگرام بدحال قوم کے دلوں میں زندگی کی رمق جگانے اور پیدا کرنے کے خیال سے سامنے لاتی ہے کبھی سستی روٹی جیسی اعلی سکیم کا آغاز کرتی ہے اور کبھی بے روزی گاری کے آسیب سے نجات کی خاطر اس قوم کے شاہینوں کو ٹیکسی ڈرائیور بناکر ان کیلئے باعزت روزگار کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی مخلصانہ جدوجہد میں مصروف عمل نظر آتی ہے
ابھی تھوڑی ہی دن بیتے ہیں کہ جب جنوبی پنجاب کے پسماندہ ضلع چنیوٹ کے قصبہ رجوعہ میں پوری قوم نے ملک کے وزیراعظم کو ایک بار پھر انتہائی جذباتی انداز میں یہ عزم دھراتے دیکھا کہ چنیوٹ کے قصبہ ”رجوعہ”کے معدنی ذخائر ملک سے کشکول کلچر ایسی لعنت کے خاتمہ میں معاون و مدد گار ثابت ہونگے رجوعہ میں ایک بہت بڑی تقریب بھی اس موقع پر منعقد ہوئی جناب وزیراعظم نے لوہے کا ایک وزنی ٹکرا مشاہدہ کی غرض سے اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اٹھارکھا تھا ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے بھی قوم کو بہت بڑی خوشخبریاں اس تقریب میں گفتگوکے دوران سنائیں رجوعہ کے ان قیمتی خزانوں کے حوالے سے ملک بھر میںبحث جاری ہے بہرحال اس سے متعلق جو بھی آراء آتی رہیں مثلاً یہ خزانہ پہلے سے دریافت کیا جاچکا تھا اور میاں نواز شریف نے ایشوز کا رخ موڑنے کیلئے ہی محض ان حالات میں اس تقریب کا انعقاد ضروری سمجھا
لیکن یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ یہاں ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے مطابق ریکوڈک سے بھی کہی زیادہ مقدار میں قیمتی معدنیات کے ذخائر موجود ہیں یہ الگ بحث یا معاملہ ہے یہ کب دریافت ہوئے اور کب نہیں ہوئے لیکن یہ ایک الگ اور واضح حقیقت ہے کہ خزانہ ہاتھ آیا ہے اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں مجھے تو صرف اس ضمن میں یہ ارض کرنا تھا کہ کیا واقعتاً ایک تجربہ کار وزیراعظم اور اُس کی پُرعزم ٹیم اپنے کپتان کی سربراہی میں ملک کو کشکول کلچر کی ناپاکی سے پاک کرنے اور پاکستان کو فخر ایشیاء اور ایشیاء کا ٹائیگر بنانے کا مکمل عزم کیئے ہوئے ہے یا اس اعلان پر بھی قرض اتاروں ملک سنواروں سستی روٹی سکیم اور اپنا کاروبار روزگارسکیم جیسا حشر وہ بپا کریں گے
مجھے تو لگتاہے کچھ عرصہ بعد رجوعہ کے کباڑیے اپنے موٹر سائیکلوں، رکشوں اور گدھا ریڑھیوں پر ایک بورڈ آویزاں کرکے دور دراز کے علاقوں تک پھیلے ہوئے نکل جائیں گے اور اس بورڈ پر یہ تحریر نمایاں حروف میں سب دیکھنے والوں کو پڑھنے کو ملے گی رجوعہ کا اصلی لوہا لے لو تانبا اور سونا لے لو۔اللہ کے بندو !کوئی منصوبہ بندی کوئی لائحہ عمل، مذاق مذاق میں ملک سونے کی چڑیاں یا چِین نہیں بن جایا کرتے۔
تحریر : لقمان اسد