لاہور (ویب ڈیسک) کہانی کمال کی، فلمی بلکہ ویری فلمی، یہ بتاتا چلوں، بہت کچھ سامنے آچکا، کافی کچھ بتانے کیلئے مگر چونکہ معاملہ عدالت میں، اس لئے وہی لکھ رہا جو مریم نواز نے بتایا، جو جج صاحب کے بیانِ حلفی میں، جو میڈیا میں آچکا، بس سب باتوں کو ایک ترتیب سے لکھ رہا، نامور کالم نگار ارشاد بھٹی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔بات شروع کرتے ہیں 16سال پہلے سے، ملتان کا ایک چلتا پرزہ، سیاستدانوں، افسروں کی دعوتیں کرتا، عالم مدہوشی، نازک لمحوں کی وڈیوز بناتا، بوقت ضرورت بلیک میل کرتا، جج ارشد ملک کی پوسٹنگ ملتان ہوئی، چلتے پرزے سے سلام دعا، آنا جانا، دوستی، دعوتیں، وڈیوز بنیں، محفلیں سجتی رہیں، وقت گزرتا رہا، پاناما لیکس ہوئیں، وزیراعظم نواز شریف کا نام آیا، معاملہ پارلیمنٹ سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ جا پہنچا، یکم نومبر 2016کو باقاعدہ سماعت، 20اپریل 2017کو سپریم کورٹ کے 5رکنی بنچ کا فیصلہ، 2ججز نواز شریف کیخلاف، 3حق میں، میاں صاحب بال بال بچے، جے آئی ٹی بنی، 5رکنی عملدرآمد بنچ بنا، 10جولائی کو جے آئی ٹی نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی، 28جولائی 2017کو سپریم کورٹ کے 5رکنی بنچ نے فیصلہ سنا دیا، نواز شریف نااہل، سپریم کورٹ کا 6ہفتوں کے اندر میاں صاحب کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم، 8ستمبر 2017کو نیب ایگزیکٹیو بورڈ نے ایون فیلڈ، فلیگ شپ، العزیزیہ 3ریفرنس احتساب عدالت بھجوا دیئے، 19ستمبر 2017کو جج بشیر نے ایون فیلڈ کی سماعت شروع کی، 6جولائی 2018کو ایون فیلڈ فیصلہ آیا، نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن صفدر کو سزائیں۔ یہ کہانی یہیں روک کر واپس جج ارشد ملک کی طرف چلتے ہیں، دعوتوں کے دوران مبینہ طور پر غیر اخلاقی وڈیوز بن چکیں، سنا جا رہا ایک نہیں کئی وڈیوز، جج ارشد ملک کی بہت پرانی یاری ناصر بٹ اور اس کے بھائی سے، ناصر بٹ نواز شریف کا خدمتگار، بٹ صاحب کو جج کی ’غیر نصابی‘ سرگرمیوں کا علم، ملتان کہانیوں کا بھی پتا، جب میاں صاحب کا کیس ایون فیلڈ جج بشیر کی عدالت میں چلا، دفاع مشکل ہوا، روز بروز حالات خراب ہونے لگے، تب لیگیوں نے سر جوڑے، فلیگ شپ، العزیزیہ ریفرنسز کیلئے حکمت عملی، وہی پرانا حربہ، اپنا بندہ لگواؤ، وہی ہمارے کیس سنے، نظر ارشد ملک پر پڑی، فروری 2018میں انہیں احتساب عدالت ٹو کا جج لگوا دیا گیا، یاد رہے یہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا دور، اِدھر یہ احتساب عدالت کے جج لگے، اُدھر چند دنوں بعد ایک روز جج صاحب کے ملتانی میزبان نے نواز کیمپ کے ایک شخص کو ان کی وڈیو دکھائی، بس پھر کیا، یہ وڈیو مہنگے داموں خرید لی گئی، فروری 2018یہ احتساب عدالت کے جج لگے، 6جولائی 2018کو جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ کا فیصلہ سنایا تو خواجہ حارث نے درخواست کی ہمارے باقی دونوں کیس دوسری عدالت کو منتقل کر دیئے جائیں، جج بشیر نے یہ درخواست مسترد کر دی، خواجہ حارث اسلام آباد ہائیکورٹ چلے گئے، گو کہ ہائیکورٹ نے بھی جج بشیر کے حق میں فیصلہ دیا، لیکن 16جولائی 2018کو جج بشیر نے خود ہی کیسز سننے سے معذرت کرلی، دونوں کیس جج ارشد ملک کی عدالت میں لگے، 27اگست 2018کو جج ارشد ملک نے فلیگ شپ، العزیزیہ کی سماعت شروع کر دی۔ اب 4مہینوں 80سماعتوں کے دوران کیا ہوا، جج ارشد ملک کس کس سے ملتے رہے، کیا کیا ہوتا رہا، خرید و فروخت یا غیر اخلاقی وڈیو کا دباؤ یا میرٹ پر کیس سنے، میرٹ پر فیصلے، یہ عدالت پتا چلا لے گی، اس پر بات نہیں کرتے مگر یہ تو آپ کو معلوم، پاناما لیکس ہوئیں، نواز شریف نے اپنے دفاع کی بنیاد رکھی جھوٹ پر، قومی اسمبلی میں ’جناب اسپیکر یہ ہیں وہ ذرائع جن سے لندن فلیٹس خریدے‘ والی تقریر کرکے، سپریم کورٹ میں اس جھوٹ کا دفاع ناممکن ہوا تو تقریر کو ایک سیاسی بیان بنا دیا، پھر 7فورمز، ڈھائی سالوں میں قانونی جنگ جان بوجھ کر سیاسی جنگ کے طور پر لڑی اور پھر ہاؤس آف شریفس سمیت پوری نون لیگ نے پہلے دن سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت احتساب کو سیاسی انتقام، اسٹیبلشمنٹ کی سازش کہہ کر مشکوک، کمزور بنانے کی کوششیں جاری رکھیں۔ بتانے کا مقصد، وہ نون لیگ جس کا دفاع اتنا کمزور، بنیاد جھوٹ پر، جس سے قانونی جنگ نہ لڑی گئی تو اسے سیاسی جنگ بنایا اور جس نے قدم قدم پر فوج، جوڈیشری پر چڑھائیاں کیں، نت نئی سازشی تھیوریاں گھڑ کر احتسابی عمل کو مشکوک بنایا، اسی نون لیگ کی کمال کی چال، ایک ایسا جج لائی جس کی غیر اخلاقی وڈیو پاس، جس سے برسوں کی شناسائی، سوچئے، اب اگر یہ جج بری کر دے تو بھی ٹھیک، اگر سزا دیدے تو خرید، بلیک میل کرکے پورا احتسابی عمل مشکوک بنا دو، یہی کچھ کیا گیا، یہی کچھ ہو رہا، سوچئے، جج ارشد ملک نون لیگ کا جاننے والا، اسے احتساب عدالت میں لگوایا نون لیگ نے، اس کی عدالت میں اپنے کیس ٹرانسفر کروائے نون لیگ نے، جج مسلسل ملتا رہا نون لیگ سے، جج لیگیوں کی من مرضی کی آڈیو، وڈیوز بنواتا رہا، جج لیگیوں کو قانونی مشورے دیتا رہا اور نون لیگ کہانی یہ سنا رہی، جج پردباؤ اسٹیبلشمنٹ کا، چونکہ فیصلہ دباؤ میں دیا، ضمیر ملامت کر رہا تھا، ڈراؤنے خواب آ رہے، اس لئے ہم سے ملا، پہلی بات، چلو ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایک ملاقات، دو ملاقاتیں، یہ کیا ملاقاتوں پر ملاقاتیں، وڈیوز پر وڈیوز، ڈراؤنے خوابوں سے ڈرنے والے جج صاحب کو کیا ہوا کہ پوری ریاست کا ڈر ایک طرف رکھ کر، اپنے نام، مقام کی پروا کئے بنا ملزم پارٹی سے اسلام آباد، لاہور، مدینہ ملاقاتیں، کیا یہ اعلیٰ درجے کا لالچ یا کمال کی بلیک میلنگ نہیں، پھر یہ کیسا اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ کہ جج نہ صرف ناصر بٹ، میاں طارق، ناصر جنجوعہ، مہر جیلانی، خرم قیوم سمیت 20لیگی زعماء سے بار بار ملا بلکہ حسین نواز سے مدینہ، نواز شریف سے مبینہ طور پر جاتی امراء جا کر مل لیا اور پھر یہ بھی سبحان اللہ کہ تحقیق و تفتیش سے پہلے ہی مریم نواز کی آڈیو، وڈیوز سب کچھ اصلی جبکہ جج کی پریس ریلیز، بیانِ حلفی سمیت سب کچھ جعلی۔ جیسے پہلے کہا معاملہ عدالت میں، عدالت کا ہر فیصلہ قبول، مگر جج ارشد ملک کا کردار افسوسناک، شرمناک، مثالِ عبرت بنانا چاہئے، لیکن آڈیو، وڈیوز اصلی نکلیں یا نقلی، میاں صاحب کا ٹرائل دوبارہ ہو یا نہیں، ایک جج کو لالچ دینے، بلیک میل کرنے والوں کو بھی مثالِ عبرتناک بنانا ہوگا، ورنہ گاڈ فادر، سسلین مافیا رہی سہی کسر بھی نکال دے گا۔