پاناما کیس میں حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجا نے عدالتی کارروائی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پینتالیس سال کا ریکارڈ پیش کرنا ممکن نہیں،کیا عدالت انکوائری کے بغیر کسی نتیجے تک پہنچ سکتی ہے؟سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ کر رہا ہے۔حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجا نے اپنےدلائل میں کہا کہ وزیراعظم کے خلاف کوئی چارج نہیں۔اگر بچوں کونیب قانون کےتحت ملزم ماناجائےتو بارثبوت میرےموکل پرنہیں۔یہ فوجداری مقدمہ نہیں اس لئےحسن نواز،حسین نوازملزم ہیںبھی تو ان کےخلاف ثبوت نہیں،عدالت کے پاس کمیشن بنانے کا بھی اختیار ہے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہ وضاحت مانگی جا سکتی ہے کہ یہ فلیٹس بچوں نے کیسے خریدے؟
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ فلیٹس حسین نواز نے اپنے دادا کے کاروبار سے لیے، درخواست گذار نے وزیر اعظم پر یہ فلیٹس غلط طریقے سے خریدنے کا الزام لگایا ہے تاہم ایسی کسی بھی بدعنوانی کا ریکارڈ سامنے نہیں آیا۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ یہ بھی کہا گیاکہ رحمٰن ملک نے اپنی رپورٹ تیار نہیں کی تھی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا رحمٰن ملک کی رپورٹ میں جن اکاؤنٹس کا ذکر کیا گیا اس سے انکار کر سکتے ہیں؟سلمان اکرم راجا نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ بھی اس رپورٹ کو مسترد کرکے ملزمان کو بری کر چکی ہے۔ قانون کی نظر میں رحمٰن ملک کی رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ ثابت ہے 1999 میں فلیٹس وزیراعظم تو کیا شریف خاندان کے بھی نہیں تھے، 93 سے 96 کے دوران الثانی خاندان نے یہ فلیٹس خریدے، جنوری 2006 میں الثانی خاندان نے فلیٹ کے بیئرر سرٹیفیکیٹ حسین نواز کے حوالے کئے،جولائی 2006 میں یہ بیئررسرٹیفیکیٹ منروا کمپنی کو ملے۔
جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ اس کا ریکارڈ کہاں ہے؟ کب پیش کریں گے راجا صاحب؟ آپ پہلے دن سے ادھر سے ادھر چھلانگیں لگا رہے ہیں،آپ کے پاس دستاویز ہیں تو دکھائیں۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ الزام یہ ہے کہ مریم نواز نے منروا سے رابطہ کیا۔