دم گُھٹتا جارہا ہے افسردہ دلی سے یارو!
کوئی افواہ ہی پھیلا دو کہ کچھ رات کٹے
امریکی قید میں مظلوم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ کئی برس سے حکمرانوں کی بےحسی کی چادر تانے پڑا تھا۔ کل سوشل میڈیا پر اچانک ہی اس کی موت کی افواہ نے ہل چل پیدا کر دی۔ انٹرنیٹ اب ہماری زندگیوں کا لازمی اور غالب جزو بن چکا ہے۔ ہم اس کی اطلاعات کی تصدیق کیے بِنا ہی متاثر ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ متاثر ہونا لائک، کمنٹ اور شیئر کے ذریعے دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو جاتا ہے۔
کل ڈاکٹر عافیہ کی موت کی خبر بھی ایک غیرمستند سائٹ پر سامنے آئی، اور چونکہ عافیہ قوم کی دُکھتی رگ ہے‘ لہٰذا یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ لوگ بےچین ہو کر اپنی مظلوم بہن کی خیریت معلوم کرنے ان کی فیملی کی جانب لپکے۔ فیملی ترجمان ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے مطابق:
ڈاکٹر عافیہ کی زندگی اور صحت سے متعلق ہمیں حکومتِ پاکستان، وزارت خارجہ اور امریکی جیل حکام کی جانب سے کوئی باضابطہ اطلاع نہیں ملی، اور کوشش کے باوجود پاکستانی اور امریکی حکام سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ جبکہ دو سال سے زائد عرصہ گزر گیا، اہلِ خانہ رسمی رابطے سے بھی محروم ہیں۔ اس لیے عوام کسی افواہ پر یقین نہ کریں اور دعا کریں کہ اللّٰہ تعالیٰ جلد ہماری بہن کو مکمل عافیت کے ساتھ وطن واپس لانے والے حکمران عطا فرما دے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی پروٹوکول یہ ہے کہ سب سے پہلے فیملی کو اطلاع دی جاتی ہے، اور اس کے بعد جس ملک کا باشندہ ہوتا ہے اس ملک کے قونصلیٹ یا سفارتخانہ کو اطلاع دی جاتی ہے۔ امریکہ میں پاکستانی قونصلیٹ عائشہ فاروقی سے بذریعہ ای میل رابطہ کرنے پر جواب آیا ہے کہ وہ پیر کے دن کنفرم کرسکیں گی۔
سوشل میڈیا پر ڈاکٹر عافیہ کے انتقال کی افواہ کے بعد اندرون و بیرونِ ملک سے ٹیلی فون کالوں کا تانتا بندھ گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ ٹیلی فون، ایس ایم ایس اور سوشل میڈیا کے ذریعے عافیہ کی خیریت دریافت کررہے ہیں، عوام مظلوم عافیہ کی واپسی کے بغیر امریکی قاتل کرنل جوزف کو چھوڑ دینے پر شدید غم و غصے اور افسوس کا اظہارکر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عافیہ سے متعلق افواہیں پھیلانے کا مقصد امریکی قاتل کرنل جوزف کی شرمناک واپسی پرشدید عوامی تنقید کا رخ موڑنا بھی ہو سکتا ہے۔
واضح رہے، ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو 2003 میں مبینہ طور پر اس وقت کے حکمران پرویز مشرف کی اجازت پر کراچی سے تین چھوٹے بچوں سمیت اغوا کر کے بگرام ایئربیس افغانستان لے جایا گیا تھا۔ یہاں پانچ سال تک امریکی عقوبت خانے میں انسانیت سوز مظالم توڑے گئے۔ برطانوی نَومسلم صحافی ایوون ریڈلے نے یہاں موجود قیدی نمبر 650 کے ڈاکٹر عافیہ ہونے کا انکشاف عالمی میڈیا کے سامنے کیا۔ اس کے بعد اس خاتون کے خلاف ایک عجیب و غریب مقدمہ تیار کیا گیا۔ جس کے مطابق یہ کمزور اور زخموں سے چُور خاتون M_4 گن اٹھا کر امریکی فوجیوں پر حملے کی مرتکب ہوئی ہے۔ ایک فوجی قریب سے گولی مار کر عافیہ کو زخمی کر دیتا ہے۔ وہ بچ جاتی ہے اور 2009 میں امریکہ منتقل کر دی جاتی ہے۔
امریکی قیدیوں پر حملہ کرنے اور مارنے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔ فرضی اور رسمی عدالتی کارروائی کے بعد چھیاسی (86) سال قید کی سزا سنا دی جاتی ہے۔۔ قید کی سزا کے طور پر انہیں 6×6 کی تنگ و تاریک کوٹھری میں رکھا گیا ہے۔ جسمانی تشدد اور برہنگی کی اذیت، قرآن کی بےحرمتی پر لباس دینے کی شرط، مظالم کا حصہ ہونے کے باوجود اس خاتون کا عزم مضبوط ہے۔
دوسری جانب اس کے اہلِ خانہ اس مظلوم بیٹی کے لیے انصاف کی تلاش میں مسلسل کوشاں ہیں۔ عدالتی فیصلے میں ان کو دی جانے والی سزا کو سیاسی سزا کہا گیا ہے۔ اس لیے اس معاملے کو سیاسی کیس کے طور پر ڈیل کیا جانا چاہیئے تھا۔ مگر افسوس! سیاست کے ایوانوں میں اس کیس کے لئے کوئی ڈیل نہ کی جاسکی۔
مبینہ طورپر، پرویزمشرف نے اس کی گرفتاری کے عوض ڈالرز وصول کیے اور اپنی کتاب میں اس کا شرم ناک تذکرہ بھی کیا۔ آصف زرداری نے امریکہ سے آئی ہوئی کیس کی اہم دستاویز پر دستخط صرف اس وجہ سے نہیں کیے کہ یہ عافیہ کو بھیجنے والوں کا کام ہے۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت نے عافیہ کی رہائی کے سلسلے کی اہم ترین کوشش کو ناکام بنا دیا۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کے اہل خانہ اور ان سے محبت کرنے والے اس معاملے میں حسین حقانی کے کردار کوسفاکانہ سمجھتے ہیں۔۔ انہوں نے بیوہ اور غمزدہ ماں کے ساتھ ان کی بیٹی کو واپس لانے کا جھوٹا مذاق کیا۔ حکومت سے پیسے بٹورنے کے باوجود عافیہ کو ٹارچر سیل کے حوالے کیا۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنی مدت کے ابتدائی 100 دنوں میں عافیہ کو وطن لانے کا اپنا وعدہ کیا بھولے، گویا اپنی نااہلی کے سفر کا آغاز کر بیٹھے اور بجا طور نفرت کے حق دار ٹھہرے۔
ڈاکٹر عافیہ پاکستانی قیدی ہے۔ اس کے کیس کو ریاستی طور پر حل کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن ہماری نام نہاد مصلحت کیش سیاسی پالیسیاں اس کی متحمل نہ ہو سکیں۔ ماضی اور حال میں امریکی سفارتکار، حادثاتی طور پر پاکستانیوں کے قتل کے مرتکب ہوئے۔ چیف جسٹس صاحبان کے بلند و بانگ دعووں کے باجود حکومت ہر بار امریکی غلامی کے آگے بےبسی کی تصویر بن گئی، نتیجتاََ دونوں قاتل سفارتکاروں کو باعزت ان کے وطن رخصت کیا گیا۔
اب شکیل آفریدی کی صورت میں ایک اور موقع موجود ہے۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے سی آئی اے (CIA) کو اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے میں مدد کی تھی۔ ایک روسی خبررساں ادارے کے مطابق امریکا نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو چھڑانے کے بدلے پاکستان کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی پیشکش کی تھی، تاہم پاکستان نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔
ڈاکٹر عافیہ کے معاملے میں ہر حکومت کی پسپائی اس بات کا اعلان ہے کہ اس معاملے کو کسی سیاسی پارٹی کی مکمل/ غیرمشروط حمایت حاصل نہیں۔ نئے انتخابات قریب ہیں، ان کی تیاریوں کے سلسلے میں سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی، اتحاد اور جلسے جلوس سبھی کچھ ہو رہا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ عافیہ کتنا، کہاں، کس کس کو یاد رہتی ہے؟
بے حسی کی اس گھمبیر فضا میں اگر اس کی موت کی افواہ وائرل ہوتی ہے تو یہ ایک جھنجھوڑ دینے والی یاد دہانی ہی ہے۔ افواہ بذاتِ خود بِلاتحقیق خبر اور ممکنہ شر ہے۔ مگر شر سے خیر کو نکالنے پر بھی اللّٰہ ہی قادر ہے۔
ڈاکٹر عافیہ کی آخری خبرگیری کا تذکرہ بھی یاد رہے۔ امریکہ میں پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی عافیہ سے ملاقات کرنے جیل گئیں۔ ان کے مطابق جنیوا کنونشن کی شق 2047 کا حوالہ دینے پر انہیں ملاقات کے لیے اس بیرک تک لے جایا گیا جہاں عافیہ قید ہے۔ عائشہ فاروقی کے الفاظ ملاحظہ ہوں! کیا حکمران اور سیاستدان یہ الفاظ اپنے جگر گوشوں کے لیے پسند کریں گے؟
“سلاخوں کے پیچھے بیڈ پر ایک خاتون منہ پر چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہڈیوں اور گوشت کا ڈھیر بیڈ پر دھرا ہے، بےحس و حرکت جیل حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ یہی عافیہ ہے۔”
اس طرح عافیہ کے زندہ ہونے کی تصدیق ہو گئی، ورنہ ماضی میں تقریباََ گیارہ برس قبل صرف ایک مرتبہ پاکستانی سینیٹرز کے ایک وفد کو عافیہ سے ملاقات کی اجازت ملی تھی۔ جب کہ گذشتہ ڈھائی سال سے ٹیلی فون پر ہونے والی اہلِ خانہ سے چند منٹ کی گفتگو کا سلسلہ بھی منقطع ہے۔ اس کی صحت کی تشویش ناک اطلاعات کے بعد حکومت سے کئی بار نجی خرچ پر عافیہ سے ملاقات کروانے کی درخواست کی جا چکی ہے۔ ضعیف والدہ اپنی بیٹی، اور بچے اپنی ماں سے ملاقات کے لیے ساڑھے چودہ سال سے تڑپ رہے ہیں۔
ہمارے دفترِخارجہ کے ترجمان، ڈاکٹر محمد فیصل کے مطابق : “پاکستان کی جانب سے انسانی ہمدردی کا کام چودہ سو(1400) سال پہلے کی تعلیمات کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں قیدیوں کی رہائی چودہ سو برس پرانی اسلامی روایات کی عکاس ہے۔”
کتنے صدر، وزیر اعظم، چیف جسٹس اور آرمی چیف آئے اور چلے گئے… کیا عافیہ کو وطن واپس لانے کی سعادت کسی کو نہیں ملے گی؟
وقت کا مؤرخ سراپا انتظار ہے!