لاہور (ویب ڈیسک) جعلی بینک اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کیس کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ نے ملک میں سیاسی ہلچل پیدا کر دی ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب سیاسی ‘اقتصادی اور مالیاتی استحکام کے لئے مفاہمت‘ رواداری اور ہم آہنگی کے ماحول کی ضرورت ہے ۔ نامور کالم نگار کنور دلشاد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ سپریم کورٹ نے172افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے باز پرس کی ہے‘ اور یہ معاملہ کابینہ میں لے جا کر نظر ثانی کی ہدایت کی ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے ریمارکس دئیے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ صحیفہ ہے اور نہ اس کی بنیاد پر حکومت گرانے کی اجازت دی جائے گی۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے سخت ریمارکس سے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو سیاسی اور انتظامی دھچکا لگا‘ اور ان کے وزیر مملکت کو سپریم کورٹ سے کابینہ کے بعض وزرا کے بیانات پر معذرت کرنا پڑی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب اقتدار ‘ دولت اور شہرت انسان کے صحن میں اترتی ہے تو وہ اسے ذاتی سرمایہ سمجھنے لگتا ہے اور ان کی قدرو قیمت فراموش کر دیتا ہے ۔ ایسے وقت میں جب سیاسی ‘ اقتصادی اور مالیاتی استحکام کے لئے ملک کو مفاہمت‘ رواداری اور ہم آہنگی کے ماحول کی ضرورت ہے تووزیر اعظم کی کابینہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے ساتھ ٹکرائو کی فضا پیدا کر رہی ہے اور دونوں پارٹیوں کی جانب سے ایک دوسرے کی حکومت گرانے کے دعوے شروع کر دئیے گئے ہیں‘ یوں ملک میں انتشار ‘ خلفشار اور آئینی بحران کی فضا پیدا ہو گئی۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار صاحب نے ملک کو بحران میں مبتلا ہونے سے بچا لیا‘ اور اس صورتحال پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ تو صرف ایک شکایت ہے‘ کوئی آسمانی صحیفہ نہیں۔ قانونی ماہرین اور مبصرین کے مطابق جمہوریت‘ قانون کی حکمرانی اور سیاسی استحکام کا اولین تقاضا اور حکمران جماعت سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ قانونی معاملات کے فیصلے عدالتوں پر چھوڑ دیں اور عجلت میں کوئی نتیجہ اخذ کرکے محاذ آرائی کو ہوا نہ دیں۔ ملکی معیشت اس وقت شدید دبائو کا شکار ہے ‘ ایسے میں ملک سیاسی محاذ آرائی اور عدم استحکام کا روادار نہیں ہو سکتا ۔ لندن میں مقیم میرے ایک انتہائی قریبی دوست ‘جو ذو الفقار علی بھٹو ‘ حنیف رامے ‘ غلام مصطفیٰ جتوئی اور نصرت بھٹو کے قریبی دوست رہے ہیں‘ حال ہی میں پاکستان میںاسلام آباد آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے قریبی ذرائع کے حوالے سے قیاس آرائی کی کہ ممکن ہے‘ فاطمہ بھٹو اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز تحریک انصاف سے کریں۔ اس حوالے سے تمام معاملات تقریبا ً طے پا چکے ہیں اور سوشل میڈیا پر فاطمہ بھٹو اور جمائمہ کی ملاقات کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔ ان خبروں کی وجہ سے بھی توقع کی جا رہی ہے کہ فاطمہ بھٹو تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں گی۔ا س سلسلے میں غنویٰ بھٹو کے چند تحفظات ہیں‘ جن پر وہ وزیر اعظم عمران خان سے براہ راست بات کرنا چاہتی ہیں‘ کیونکہ غنویٰ بھٹو مرتضیٰ بھٹو کے قاتلوں کوبے نقاب کروانا چاہتی ہیں۔ جسٹس ناصر اسلم زاہد کی رپورٹ اور سندھ کی عدالتوں میں مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے کیس زیر التوا ہیں اور غنویٰ بھٹو انصاف کی متلاشی ہیں ۔ اب اگر وزیر اعظم عمران خان غنویٰ بھٹو کے تحفظات دور کرتے ہیں تو فاطمہ بھٹو تحریک انصاف میں اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوں گی‘ اور قوی امکانات ہیں کہ فاطمہ بھٹو صوبہ سندھ میں تحریک انصاف کی اہم عہدیدار ہوں گی۔ فاطمہ بھٹو نے اپنی سر گزشت میں‘ جو دہلی سے شائع ہوئی تھی‘ اپنے والد مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے حوالے سے حیرت انگیز انکشافات کئے ہیں اور تحریک انصاف ان کی کتاب کے حوالے سے آصف علی زرداری کو کارنر کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ فاطمہ بھٹو کے بارے میں یہی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ وہ تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر کے پاکستان کی صفِ اول کی راہنما کا روپ دھاریں گی اور سندھ میں مرتضیٰ بھٹو کے پرستار‘ جو آصف علی زرداری کے خوف سے زیر زمین ہیں وہ صوبے میں آصف علی زرداری کی پارٹی کے ورکروں کے لئے زمین تنگ کر دیں گے اور فاطمہ بھٹو کی شمولیت سے بین الاقوامی سطح پر تحریک انصاف صف اول کی جماعت بن کر ابھرے گی‘ لیکن عمران خان صاحب کو اپنی پارٹی کے محلاتی مہروں سے دور ہونا پڑے گا۔ اس وقت سندھ میں تحریک انصاف کے راہنمائوں میں دم خم نہیں ہے کہ وہ آئندہ چل کر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا مقابلہ کر سکیں‘ لہٰذافاطمہ بھٹو کی سندھ میں موجودگی سے خاصا اثر پڑے گا اور فاطمہ بھٹو کا راستہ روکنے کے لئے ان پارٹیوں کو اپنے سازشی ساتھیوں پر نگاہ رکھنی پڑے گی ۔ میرے خیال میں وزیر اعظم عمران خان کو ایسی مشاورتی کونسل قائم کرنی چاہئے‘ جو ان کو آئینی ‘ سیاسی اور قانونی طور پر عہد در عہد بریف کرتی رہے‘ کیونکہ حال ہی میں ان کے سیاسی‘ آئینی اور انتظامی وژن کو نا قابل تلافی جھٹکا لگا ہے‘ کیونکہ ان کے سیاسی مشیران نے آصف علی زرداری کے خلاف جو ریفرنس صوبا ئی الیکشن کمشنر سندھ کی وساطت سے داخل کروایا‘ وہ آئینی طور پر آئین کے آ رٹیکل 63 ون کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ اسی طرح گورنر راج کے حوالے سے اور 172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے سے یہی اظہار ہوا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے ارد گرد ایسے افراد کا گہرا اثر ہے جو ان کی شخصیت کو گرہن لگا رہے ہیں ۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد گورنر راج نافذ کرنے کے حوالے سے صدر کے اختیارات محدود ہیں جبکہ پارلیمان اور متعلقہ صوبائی اسمبلی کے پاس گورنر راج کو محدود کرنے کے وسیع اختیارات ہیں اور مبینہ جعلی بینک اکائونٹس بشمول کئی ارب روپے کے معاملے‘ جس نے آصف علی زرداری ‘ بلاول زرداری اور فریال تالپور او ر کئی دیگر افراد کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے‘ کے حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹ جمع کرانے کے بعد تحریک انصاف سندھ میں صدارتی راج لگانے کے حوالے سے بیان بازی کرتی رہی‘ جبکہ آئین کے آرٹیکل 232کی شق 1کے مطابق پاکستان کی سلامتی یا کسی اور حصے کو جنگ کا خطرہ یا بیرونی جارحیت یا صوبائی حکومت کے اختیارات سے باہر اندرونی گڑ بڑ ہو‘ جس پر قابو پانا نا ممکن ہو تو صدر ایمر جنسی کا اعلان جاری کر سکتا ہے‘ لیکن ایمرجنسی کے نفاذ کے لئے متعلقہ صوبائی اسمبلی سے ایک قرار دار کی ضرورت لازمی ہوگی۔ موجودہ حالات میں سندھ اسمبلی سے ایسی قرار داد کا منظور ہونا ناممکن ہے۔ دوسری شرط یہ بتاتی ہے کہ اگر صدر ذاتی طور پر ایسا کوئی اقدام کرتاہے تو ایمرجنسی کا اعلان دس دنوں کے اندر اندر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کرنا ہوگا‘ اور ہر دو سے اس کی منظوری لینا ہوگی۔ اگر ایسی قرار داد تحریک انصاف لاتی ہے تو قومی اسمبلی سے منظور ہو جائے گی کیونکہ وہاں حکمران اتحاد کی اکثریت ہے‘ لیکن سینیٹ سے مسترد ہو جائے گی۔ اس قرار داد کی دونوں ایوانوں سے منظوری لازمی ہے ۔ آرٹیکل 233کے تحت جس دوران ایمرجنسی کا اعلان نافذالعمل ہو تو صدر حکم جاری کر سکتا ہے کہ بنیادی حقوق کے نفا ذ کے لئے کسی بھی عدالت جانے کا حق اور کسی بھی عدالت میں کوئی کارروائی‘ جو نفاذ یا خلاف ورزی سے متعلق کسی بھی سوال کا تعین کرنے کے حوالے سے ہو یا دوسرے حقوق میں سے جو کوئی بھی مخصوص ہوں نافذ العمل اعلان کے دوران معطل رہیںگے۔ اس طرح کا کوئی بھی حکم پورے پاکستان یا کسی حصے کے لئے دیا جا سکتا ہے‘ تاہم اس طرح کا کوئی بھی حکم دونوں ایوانوں کے سامنے الگ الگ منظوری کے لئے پیش کرنا ہوگا‘ یہاں بھی پارلیمنٹ کو اختیار ہے ۔اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو لامحدود اختیارات سے نوازا گیا ہے اور وزیر اعظم کے اختیارات محدود کر دئیے گئے ہیں۔ ان حالات میں وزیر اعظم عمران خان کو انتہائی باریک بینی سے حالات کا جائزہ لینا ہوگا۔ ان کے مشیر ‘ان سے وہی کام لینا چاہتے ہیں جس طرح صدر پرویز مشرف سے ایمرجنسی پلس لگوا کر کچھ لوگوں نے لیا تھا۔ ان کے اپنے مقاصد تو پورے ہو گئے‘ لیکن صدر مشرف آئین کے آرٹیکل 6 کی زد میں آگئے۔ اب بھی مجھے نظر آ رہا ہے کہ ان کے کوتاہ اندیش بعض ساتھی اپنے ذاتی مقاصد کی خاطر وزیر اعظم عمران خان کو کوئی غیر آئینی اقدام کرنے پر مجبور کر دیں گے‘ جس کا وزیر اعظم کو نقصان پہنچے گا۔