کیا بھارتی پائلٹ کی رہائی ایک درست فیصلہ ہے؟ چند پہلو میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں، فیصلہ آپ خودکر لیجیے۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہو گا کہ جنگ کیا ہوتی ہے؟ جنگ محض میدان عمل میں داد شجاعت دینے کا نام نہیں۔ یہ حکمت اور بصیرت کا نام بھی ہے۔ قدیم زمانوں کی جنگوں کا معاملہ مختلف تھا۔ اب سفارت کاری کی دنیا بھی باقاعدہ میدان جنگ بن چکی ہے۔آپ نے نہ صرف دشمن کو جواب دینا ہوتا ہے بلکہ عالمی برادری کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔کم از کم کوشش یہ ہوتی ہے کہ عالمی برادری میں دشمن کے موقف کی پزیرائی نہ ہونے پائے۔ہاں ، آپ سپر پاور ہوں اور آپ کے سامنے دشمن کی کوئی حیثیت نہ ہو اور عالمی برادری بھی ہر قیمت پر آپ کی خوشنودی چاہتی ہو تب آپ اس تکلف سے کسی حد تک بے نیاز ہو سکتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں طاقت کا جو توازن ہے وہ آپ سب کے سامنے ہے۔ بھارت کے ساتھ تنازعے میں جتنا اہم میدان جنگ ہے ، اتنا ہی اہم سفارت کاری کا میدان ہے۔ پاکستان نے بھارت کے حملے کا جواب دیتے ہوئے جہاز گرائے تو یہ میدان جنگ میں کامرانی تھی۔جب اس سے بھارتی پائلٹ کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ سفارت کاری کی دنیا میں کامیابی تھی۔آپ کا تو مجھے علم نہیں کم از کم میں پہلی بار دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان نہ صرف میدان جنگ میں پورے قد کے ساتھ کھڑا ہے بلکہ سفارتی محاذ پر بھی اس کا پلڑابھاری ہے۔ہم طالب علموں نے تو ہمیشہ پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا دیکھا، ہمیشہ ہمارے اوپر انگلیاں اٹھائی جاتی رہیں ۔یہ پہلا موقع ہے کہ سفارت کاری کی دنیا میں باوقار طریقے سے پاکستان نے اپنے کارڈ کچھ اس طرح کھیلے ہیں کہ بھارت بیک فٹ پر ہے اور پاکستان دنیا میں ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔جب کہ بھارت ایک جنونی اور غیر ذمہ دار ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔آپ خود دیکھ لیجیے اس وقت دنیا میں عمران خان کا امیج کیا ہے اور مودی کہاں کھڑا ہے۔دنیا پاکستان کے فیصلے کی تحسین کر رہی ہے۔بھارت کے معاشی حجم سے وابستہ مفادات نے بھلے عالمی برادری کو بھارت کی واضح مذمت سے روک رکھا ہو لیکن عالمی برادری میں ہی نہیں خود بھارت میں عمران خان کے موقف کی پزیرائی ہوئی ہے اور بھارت کا بطور ریاست امیج مجروح ہوا ہے۔سفارت کاری کی دنیا میں یہ معمولی کامیابی نہیں۔امکانات کے ایک جہانِ تازہ پیدا ہو چلا ہے۔ اب یہ ہمارے اوپر منحصر ہے ہم اس موقع کو غیر معمولی امکانات میں کیسے بدل سکتے ہیں۔ جنگ رد عمل کے ہیجان کا نام نہیں، یہ کسی بھی ریاست کا اپنا شعوری فیصلہ ہوتا ہے۔ ہمارا شعوری فیصلہ کیا ہے؟ہم نے اس موقع پر جنگ کی خواہش نہیں کی تھی۔ جنگ ہم نے شروع بھی نہیں کی۔ ہماری ترجیح اس وقت امن ہے۔ ہمیں اپنی معیشت کو بہتر کرنا ہے۔ معیشت کا جو حال ہے آپ کے سمانے ہے۔ بڑی محنت سے ہم نے اسے سنبھالا ہے۔ دوست ممالک سے کچھ رقم لی ہے، کچھ سرمایہ کاری ہونے جا رہی ہے۔سی پیک کی صورت معاشی امکانات کا جہاں دستک دے رہا ہے۔ جنگ نہ ہم نے شروع کی تھی نہ یہ ہماری ترجیح ہے۔ہاں جنگ مسلط ہو جائے تو اور بات ہوتی ہے۔ پھر ہر صورت مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔دشمن نے جو حرکت کی اس کا جواب دینا ضروری تھا وہ ہم نے بخوبی دے دیا۔ اس کے بعد ہمارے پاس دو راستے تھے۔اول: ہم رد عمل کی نفسیات میں بہہ کر بھارت کے بچھائے جال میں الجھ جاتے اور معاشی ترقی کے امکانات ضائع کر بیٹھتے۔دوم : ہم بھارت کو اس کی حرکت کا منہ توڑ جواب دیتے اور اسے بتاتے کہ جنگ مسلط کرو گے تو ہمیں تیار پاؤ گے۔ اور دمشن کو یہ پیغام دینے کے بعد ہم اپنی توانائیں اپنی تعمیر میں صرف کرتے۔ ہم نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ ایک خود دار قوم کی طرح ہم نے حملے کا جواب بھی دیا، آئندہ بھی کسی حرکت کا جواب دینے کو تیار ہیں لیکن ایک معاملہ فہم قوم کی طرح ہم امن کے خواہاں ہیں ، جنگ کے نہیں۔جب طے کر لیا جائے کہ ہم نے رد عمل کی نفسیات کا سیر بن کر اپنی راہ سے نہیں ہٹناتو پھر initiative اپنے ہاتھ میں رکھنے میں کیا حرج ہے۔پائلٹ سال بعد رہا ہوتا یا دس سال بعد ۔ہمیں کیا حاصل ہوتا۔ جب ترجیح ہی کچھ اور تھی تو اسے رکھ کر کیا کرتے؟ بڑا فیصلہ کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیا۔ظاہر ہے ایسے کام یکطر فہ بھی نہیں ہوتے پس پرددہ بہت سی ضمانتیں لی جاتی ہیں۔ امن کا پیغام بھی دیا، جنگ کے سائے بھی خود سے دور کر دیے۔عالمی برادری میں اپنے ملک کو غیر معمولی طور پر پزیرائی بھی دلوا دی۔ یاد رکھیے ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے اور اس وقت جنگ ہماری ترجیح نہیں، ہم نے شروع بھی نہیں کی ، ہم اسے طول دینا بھی نہیں چاہتے۔ ہم پر حملہ ہوا ہم نے جواب دے دیا۔ اس سے آگے ہمارا راستہ فی الحال کچھ اور ہے۔ہاں ، جنگ ہم نے شروع کی ہوتی یا ہماری ترجیح ہوتی تو معاملہ کچھ اور ہوتا۔جنگ محض گنڈاسہ لے کر میدان میں اتر آنے کا نام نہیں۔حکمت اور بصیرت بھی لازم ہیں۔ضروری نہیں کہ مقبول فیصلے کیے جائیں،اہم یہ ہے کہ درست فیصلے کیے جائیں۔ہمارے نو جوان بھارتی میڈیا کے حوالے دے رہے ہیں کہ دیکھ لیجیے وہاں یہ باتیں ہو رہی ہیں۔ انتہائی نا معقول اور مخبوط الحواس بھارتی میڈیا کے تجزیے سن کر جذبات مجروح ہونا فطری بات ہے لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ بھارتی میڈیا کی جہالت کے ردعمل میں فیصلے نہیں ہوتے، فیصلے اپنی ترجیحات کے مطابق کیے جاتے ہیں۔ میں پھر عرض کروں گا کہ ہماری ترجیح اس وقت جنگ اور تناؤ نہیں۔ہمیں معیشت بہتر کرنا ہے اور اپنی تعمیر کرنی ہے۔ اس کے لیے ہمیں امن کا وقفہ چاہیے۔ہاں جنگ کسی نے مسلط کرنے کی کوشش کی تو وہ الگ بات ہے۔ ایک حملہ کیا گیا جواب دیا جا چکا۔ کسی کو شوق ہے تو ایک بار پھر کوشش کر کے دیکھ لے۔