قرآن مجید کی تعلیم ‘خطبہ جمعہ‘امامت وغیرہ پر اُجرت لینے میں کوئی حرج نہیں ‘کیونکہ اس کی ممانعت کے بارے میں قرآن وسنت کے اندر کوئی صریح نص موجود نہیں ہے ۔جبکہ اس کے جواز کے دلائل موجود ہیں۔ان میں سے ایک دلیل عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ہے ۔ فرماتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک جماعت کا ایک بستی سے گزر ہوا بستی والوں نے مانگنے پر بھی ان کی مہمان نوازی نہ کی ۔اچانک ان کے سردار کو کسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا۔ان کے افراد صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور پوچھا تم میں کوئی دَم کرنے والا ہے ؟صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں سے بعض نے اُجرت لے کر دَم کی حامی بھری ۔تو انہوں نے بکریوں کے ایک ریوڑ کا وعدہ کر لیا۔سورئہ فاتحہ پڑھ کر اس پر دَم کیا اور متاثرہ جگہ پر اپنا لعاب لگایا تو وہ آدمی بالکل تندرست ہو گیا ۔وہ صحابی رسول رضی اللہ عنہ بکریاں لے کر واپس آیا تو دوسرے ساتھیوں نے کہا تو نے تو کتاب اللہ پر اُجرت لی ہے ۔گویا اس چیز کو انہوں نے ناپسند کیا۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر بھی یہی کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سب سے زیادہ جس چیز پر تم اُجرت لینے کا حق رکھتے ہو ‘وہ اللہ کی کتاب ہے ۔بخاری ہی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :کہ میرے لیے بھی حصّہ نکالو۔بخاری شریف کی اس صحیح حدیث سے ثابت ہو گیا کہ قرآن پر اُجرت لی جا سکتی ہے اس میں قرآن کی تعلیم ‘امامت اور خطبہ جمعہ بھی داخل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ عام ہیں اور ان میں وہ شامل ہیں ۔اگر اُجرت درست نہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ کہتے کہ میرا بھی حصّہ نکالو۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمیشہ حلال اور پاکیزہ چیز ہی استعمال کرتے تھے ۔دوسری دلیل نکاح میں خاوند پر بیوی کے لیے حق مہر دینا ضروری ہے ‘جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا نکاح قرآن مجید کی تعلیم کو حق مہر ٹھہر ا کر دیا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قرآن مجید کی تعلیم کی اُجرت دلوائی ہے ۔اگر اُجرت درست نہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی قرآن کی تعلیم کو حق مہر مقررنہ کرتے ۔امام مالک نے اس حدیث کے تحت لکھا ہے: اس کے علاوہ محمد بن سیرین کبار تابعین سے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ مدینہ میں ایک تعلیم دینے والا تھا‘اس کے پاس بڑے بڑے لوگوں کے بیٹے پڑھتے تھے اوروہ اس معلم کا حق ادا کرتے تھے ۔محمد بن سیرین نے اُبی بن کعب اور ابوقتادہ جیسے اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ پایا ہے اور ان سے روایات بھی لی ہیں ۔اگر قرآن کی تعلیم پر اُجرت جائز نہ ہوتی تو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کرام ضرور ایسے شخص کو روک دیتے ۔اس طرح پہلے احناف کا یہ مذہب تھا:”کہ اذان ‘حج‘قرآنی تعلیم اور امامت پر اُجرت لینا جائز نہیں “مگر احناف اپنے ائمہ کی اس بات پر قائم نہیں رہ سکے ۔اس وقت امام ابو حنیفہ کی تقلید کو نظر انداز کرکے دارالعلوم دیوبند سمیت تمام مدار س میں اساتذہ تنخواہ وصول کرتے ہیں چنانچہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ اس دور میں ہمارے بعض مشائخ نے قرآن کی تعلیم پر اُجرت لینے کو اچھا سمجھا ہے کیونکہ دینی امور پر عمل میں سستی ظاہر ہو چکی ہے۔اُجرت کے جائز نہ رکھنے میں قرآن کے ضائع ہوجانے کا خطرہ ہے اور اسی پر آج فتویٰ ہے (یعنی اُجرت لینا جائز ہے )۔باقی استاد کو تحفہ نہ دینے کے بارے میں جو روایت آپ نے ابوداؤد کے حوالہ سے ذکر کی ہے وہ صحیح نہیں ۔اس کی سند میں اسود بن ثعلبہ مجہول راوی ہے ۔ابنِ المدینی کہتے ہیں :کہ ہم اس کے لیے اس کے سوا کوئی حدیث نہیں جانتے“۔تقریب میں ہے میزان الاعتدال میں ہے غیر معروف آدمی ہے ۔اس کی متابعت میں جو سند پیش کی جاتی ہے ‘وہ بھی صحیح نہیں ۔اس کے بارہ میں امام بیہقی فرماتے ہیں کہ عبادہ بن نسی پر اس حدیث میں اختلاف ہے ۔ایک شخص اس کے استاد کا نام اسود بن ثعلبہ بتاتا ہے اور دوسرا جنادہ بن ابی میہ بتاتا ہے ۔پھر ابنِ حزم کہتے ہیں اس میں بقیہ راوی ہے اور وہ بھی ضعیف ہے ۔اس بنا پر حدیث قابل اعتبار نہیں بلکہ ابنِ حزم نے تو یہ بھی لکھ دیا ہے کہ کہ جن احادیث سے قرآنی تعلیم کی ممانعت پر استدلال کرتے ہیں ‘ان میں سے کوئی روایت بھی صحیح نہیں ہے ۔باقی علامہ ناصر الدین البانی کا اس حدیث کو اس سند کے لحاظ سے صحیح قرار دینا اس بنا پر ہے کہ ممکن ہے ابنِ نسی کے دو استاد ہوں اسود بن ثعلبہ بھی اور جنادہ بن امیہ بھی دونوں استاد ہیں ۔لیکن اس احتمال کی مجھے کوئی دلیل نہیں ملی ہے اور نہ ہی البانی صاحب نے کوئی دلیل اس احتمال کو ثابت کرنے کے لیے پیش کی ہے ۔لہٰذا صرف احتمال سے اس حدیث کو صحیح قرار دینا نظر سے خالی نہیں ہے ۔